کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 40
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ کہنا تو درست ہے کہ دمشق علم قرآن اور حدیث و فقہ کا گھر تھا لیکن یہ کہنا کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں یہاں علم کم ہو گیا تھا درست نہیں کیونکہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ علوم او صنعت و حرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ ابن خلدون جیسے ماہر، تاریخ کا کہنا ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی ہے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
دمشق کی اس مختصر تاریخ کے بعد اب ان درسگاہوں کا ذکر شروع کیا جاتا ہے جو اس مضمون کا اصل مقصود ہے ان درسگاہوں کے اساتذہ، علماء، ائمہ اور مجتہدین کرام سے اندازہ لگائیے کہ یہاں علم حدیث کی ترویج و اشاعت میں کتنی کوشش ہوئی۔
۱۔ نوریہ: دمشق کا سب سے قدیم بلند پایہ دار الحدیث نوریہ ہے۔ اسے ملک نور الدین محمود زنگی (م ۵۶۹ھ)نے تعمیر کیا۔ اس دار الحدیث کے متعلق ابن کثیر رقم طراز ہیں ۔
اِسی مدرسہ کے صحن میں ملک نور الدین محمود زنگی کا مزار بھی ہے۔
اگرچہ یہ دار الحدیث سادہ تھا لیکن اس میں اس قدر جید اور ذہین محدثین کرام کا جھمگٹا رہتا تھا کہ اور کہیں کم ہی ہو گا۔
اس دار الحدیث کے اول مہتمم حافظ ابن عساکر تھے۔ حافظ ابن عساکر مشہور محدث ہیں ۔ ان کی مشہور اور مفید ترین تالیف ’’تاریخ دمشق‘‘ ہے۔ یہ کتاب آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اور دمشق کے متعلق صحیح اور مکمل ماخذ ہے۔ حافظ ابو القاسم ابن عساکر کا اپنا بیان ہے کہ میں نے ایک ہزار تین سو ۱۳۰۰ مرد اور اسی ۸۰ سے کچھ اوپر محدّثات خواتین سے سماعِ حدیث کیا ہے۔ اس دار الحدیث کے دوسرے مہتمم ابو القاسم کے بیٹے بہاء الدین القاسم تھے۔ ان کے بعد زین الامناء بن عساکر مہتمم رہے۔
اس دار الحدیث کے شیوخ الحدیث درج ذیل ہے۔
بہاء الدین النابلی، تاج الدین انفراری، جمال الدین بن الصایونی، مجلد الدین بن المہتار، فخر الدین حنبلی، علاؤ الدین بن عطار، شرف الدین النابلسی، علم الدین اشبیلی، حافظ مزّی، حافظ