کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 4
کہہ گئے ہیں ۔ ایں صنم تا سجدہ اش کر دی خداست چوں یکے اندر قیام آئی فناست اس بت کے سامنے جب تک تو سجدہ ریز ہے، وہ خدا ہے لیکن جونہی آپ ’’کھڑے‘‘ ہو گئے وہ فنا ہو جاتا ہے۔ جو صاحب کرسیٔ اقتدار کے لئے قوم کے سامنے آتے ہیں ، پہلے انہیں خوب سبز باغ دکھاتے ہیں ، اور اس قدر سنسنی خیز انکشافات کرتے ہیں کہ عوام عش عش کر اُٹھتے ہیں ۔ جب وہ اقتدار کی گدی پر براجمان ہو جاتے ہیں تو قوم کو وعدوں سے بہلاتے ہیں ، اور جھوٹے لاروں کے ذریعے عوام کو اس قدر زچ کر ڈالتے ہیں کہ بے ساختہ ان کے حلقوم سے صدا بلند ہو جاتی ہے کہ ؎ ہمراز مرے غمخوار مرے مرنے ہی نہیں دیتے مجھ کو ہر بار یہی کہتے ہیں مجھے، وہ آتا ہے وہ آتا ہے جو بڑی آس لگا کر ان کی راہ دیکھتے رہے، جنہوں نے پسینے کی جگہ اپنا خون بہایا، جہاں سرکار دولت مدار کااشارہ ابرو ہوا وہاں سر کٹایا مگر بالآخر ان جھوٹے خداؤں نے ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اپنے پوجنے والوں کے ساتھ آگ کیا کرتی ہے ؎ دنیا بہ اہل خویش ترحم نمی کند آتش اماں نمی دہد آتش پرست را دوسری طرف عوام کی حالت بھی کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے وہ بھی ملک و ملت اور دینی مستقبل کے بجائے ذاتی مفاد کو سامنے رکھتے ہیں ، اس لئے انہوں نے جس کا بھی انتخاب کیا اس نقطۂ نظر سے کیا ہ وہ ان کو نجی اغراض کی تکمیل کے لئے کس حد تک مفید ہو سکتا ہے۔ گویا کہ عوام بھی شکاری اور ان کو شکار کرنے والے لیڈر بھی شکاری۔ یہ ان کو دامِ فریب میں لاتے ہیں اور وہ ان کو مقصود دونوں کا صرف دنیا ہے، خدا نہیں ۔ کل کی انہیں فکر نہیں ، آج کی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حق تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ﴿اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَآءَھُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا﴾ (پ۲۹۔ الدھر۔ ع۲) یہ (لوگ)تو (بس دنیا ہی)چاہتے ہیں جو سر دست موجود ہے اور روزِ سخت (قیامت)کو