کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 39
بھیجا، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’منہاج السنۃ النبویہ فی نقض قول الشیعۃ والقدریہ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
فان عمر رضی اللّٰہ عنہ کان قد ارسل الی مصر من یعلمھم القرآن والسنۃ وارسل الی اھل الشام معاذ بن جبل وعبادہ بن الصامت وغیرھما وارسل الی الحراق ابن مسعود وحذیفۃ وغیرھما۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر، شام اور عراق کی طرف صحابہ کو بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں ۔ شام میں معاذ بن جبل اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما اور عراق کی طرف ابن مسعود اور حذیفہ وغیرہ کو۔
فتن و ملاحم سے متعلق احادیث بیان کرنے کے سلسلے میں اہلِ شام کو مستند سمجھا جاتا تھا۔ حافظ ابنِ عساکر تحریر فرماتے ہیں ۔
ان اردت الصلاۃ فعلیک باھل المدینۃ وان اردت المناسک فعلیک باھل مکۃ وان اردت الملاحم فعلیک باھل الشام والرائے عن اھل الکوفۃ۔
اگر نماز سیکھنا ہو تو اہلِ مدینہ کے پاس جاؤ اگر مناسکِ حج جاننا چاہتے ہو تو اہلِ مکہ کا رغ کرو اور اگر ملاحم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق ہے تو اہلِ شام سے سیکھو اور فقہ اہل کوفہ سے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں : دمشق میں جو شام کی وسیع مملکت اور متعدد بلاد و قصبات میں پھیلے ہوئے ملک کا ایک بڑا شہر ہے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آکر فروکش ہوئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد عبد الملک اور ان کی اولاد کے زمانے میں یہاں علم کی کثرت رہی، تابعین و تبع تابعین کے عہد میں فقہا و محدثین اور قرّاء برار پیدا ہوتے رہے۔
پھر ابو مسہر، ہشام، دحیم، سلیمان ابن بنت شرجیل کے دور میں اور ان کے بعد اور ان کے شاگردوں کے زمانے میں یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ بالخصوص دمشق میں تو علم کا خوب چرچا تھا۔ یہ بات ذہبی کی اس عبارت سے معلوم ہو سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔
وھی دار قرآن وحدیث وفقہ وتناقص بھا العلم فے المائۃ الرابعۃ۔
یہ قرآن، حدیث اور فقہ کا گھر تھا اور چوتھی اور پانچویں صدی میں یہاں علم کم ہو گیا تھا۔