کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 38
قاری محمد عادل خاں
دمشق کے چند علمی مراکز
دمشق کی مختصر تاریخ
دمشق ملک شام کا سب سے قدیم شہر ہے۔ جنگ یرموک کے فوراً ہی بعد ۱۴ھ میں اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ پہلے اس پر باز نطینی حکومت تھی۔
۱۴ ھ سے لے کر آج تک اس کو ہمیشہ اسلامی ثقافت کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ ۴۱ ھ کے قریب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دمشق کو اپنا دار المخلافہ بنایا اور ان کے چوتھے جانشین ولید کے زمانے میں کنیسہ یوحنا کے کھنڈروں پر جامع دمشق تعمیر ہوئی اس مسجد کی وجہ سے دمشق کی قدرت و منزلت مسلمانوں کے دلوں میں بہت بڑھ گئی۔
دمشق، مملکت شام کا صدر مقام وار خلفائے بنو امیہ کا پایہ تخت رہا ہے۔ عہدصحابہ میں سر زمینِ شام میں ایک بار دس ہزار صحابی موجود تھے رضی اللہ عنہم۔
حافظ ابنِ عساکر م (۵۷۱ھ)تاریخ دمشق میں ولید بن مسلم سے جو امام اوزاعی کے نامور شاگرد ہیں بسند ناقل ہیں کہ:
دخل الشام عشرۃ الاف عین رأت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
ملک شام میں ایسے دس ہزار حضرات داخل ہوئے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔
اہل شام کی تعلیم و تربیت کا اہتمام
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں باشندگانِ شام کی تعلیم و تربیت کا خاص طور سے اہتمام کیا اور اس کے لئے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کو جو اکابر صحابہ میں سے تھے وہاں