کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 36
صرف ہمیں نہیں منع فرمایا بلکہ خدا سے بھی استدعا کی تھی کہ الٰہی میرے مزار کو بت بننے سے بچائیو! اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا مالک) بت بننے کے لئے یہی معنی ہیں کہ شخصیت پرستی کے جذبات سے بھرپور ہو کر آپ کے مزار مبارک سے معاملہ کیا جائے، جہاں تک حضور سے عقیدت کی بات ہے وہ سرتاپا دین ہے مگر اس کی نشانی یہ ہے کہ انسان آپ کے رنگ میں رنگا جائے، ورنہ اسے شخصیت پرستی کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ حضور مولانا ثناء اللہ پانی پتی (ف ۱۲۲۵؁ھ)لکھتے ہیں کہ عرس وغیرہ بدعت ہیں ۔ قبور اولیاء بلند کردن و گنبد ساختن وعرس و امثال آں و چراغاں کردن ہمہ بعت است (ارشاد الطالبین) مولانا شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ (ف ۱۲۶۲؁ھ)لکھتے ہیں کہ: عرس جائز نہیں ۔ مقرر کردن روز عرس جائز نیست (اربعین مسائل) شرکت عرس: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ف ۷۲۸؁ھ)فرماتے ہیں کہ: مسلمان ریاستوں میں یہود و نصاریٰ اور مجوس عید (عرس)میلے وغیرہ)منایا کرتے تھے جن کو شعانین اور باعوث کہا کرتے تھے۔ لیکن ان میں مسلمانوں نے کبھی بھی شرکت نہیں کی تھی۔ ثم لم یکن علی عھد السلف من المسلمین من یشرکھم فی شیءِ من ذلک۔ (اقتضاء صراط مستقیم ص ۹۴) حضرت عمر ان میں شرکت کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ قال عمرا یا کم ورطاغۃ الا عاجم وان تدخ رحمہ اللّٰہ وا علی المشرکین یوم عیدھم (ایضاً)بعض روایات میں ہے کہ: دشمنانِ خدا کے میلوں میں شرکت سے پرہیز کیجئے۔ اجتنبوا اعداء اللّٰہ فی عیدھم (بیھقی ایضا ص ۹۵) فرماتے ہیں کہ جب مشرکوں کے میلوں ٹھیلوں میں شرکت کرنا منع ہے تو خود ویسی عیدیں منانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔ فکرہ موافقتھم فی اسم یوم العید الذی ینفردون بہ فکیف بموافقتھم فی العمل (ایضا ص ۹۵) الغرض: مردوں کو دنیا سے نفع پہنچ سکتا ہے لیکن ایصالِ ثواب کی متداول شکل کے لئے