کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 35
اس کی وصیت فرمائی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اگر تعلق خاطر ہے تو آپ کی سنت کے اتباع اور درود پڑھنے پر اپنا سارا زور صرف کر ڈالیے، اس سے بڑھ کر کوئی عبادت اور ہدیۂ عقیدت نہیں ہے۔ اگر حسبِ عادت ماہ اور دن کی تعیین کے بغیر کوئی شخص ربیع الاوّل میں بھی ویسے صدقہ خیرات کرتا ہے جس طرح دوسرے مہینوں کرتا رہا ہے، تو پھر اس ماہ میں بھی صدقہ خیرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص محض اس مہینہ کے لئے باقی مہینوں میں بھی خیرات کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو خدا بہرحال اس حیلے سے باخبر ہے اس کو فریب دینے کی جسارت سے پرہیز کیا جائے۔ پیر جیلانی کا عرس: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اپنا عرس کرنے سے جب منع فرمایا ہے تو اور دوسرا کون ایسا مائی کا لعل ہے کہ اس کے لئے اسے جائز کیا جائے۔ ارشاد ہے۔ لا تجعلوا قبری عیدا! (ابو داؤد و نسائی) میری قبر کو عید نہ بناؤ۔ عید بنانے کے معنی، عرس کرنا، میلا لگانا اور خصوصی ایام مقرر کر کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر حاضری دینا یا آپ کے مزار مبارک کی نیت سے دور دراز سے سفر کا اہتمام کرنا ہیں ۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (ف ۱۱۷۶؁ھ)لکھتے ہیں ۔ ھذا ااشارۃ الی سد مدخل التحریف کما فعلی الیھود والنصاری بقبور انبیاءھم وجعلوھا عید ادموسما بمنزلۃ الحج (حجۃ اللہ) صاحب المنہج المستقیم نے عرس کرنا بدعت لکھا ہے۔ ومنھم من دارت علیھم المشیخۃ اتخذوا عند قبور مشائخھم سوقافی کل عام ومیمونۃ یوم العرس (المنھج المستقیم فی تمییز الصحیح والسقیم) یعنی جو بزرگ بن کر بیٹھے عرس وغیرہ کرتے ہیں اہلِ بدعت میں سے ہیں ۔ میرزا مظہر جانجاناں (ف ۱۱۹۵؁ھ)کا ارشاد ہے کہ: عرس وغیرہ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ وعرس و چراغاں منزلتے ندارد (معلومات مظہریہ از بہرائچی) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے اس لئے منع فرمایا تھا کہ انبیاء اور صلحاء کی پرستش کا جب سلسلہ شروع ہوا تھا تو وہ محض انہیں نیک جذبات اور تعامل کے ذریعے ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے