کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 34
سورۃ الانعام والاخلاص (فتاویٰ بزازیہ)
اس کے علاوہ ان ختمی دوستوں کے تعامل سے محسوس ہونے لگا ہے کہ قرآن زندوں کے لئے لائحہ عمل نہیں ہے ہمارے جیسے گنہگار مردوں کے لئے ایک تعویذ یا چورن ہے۔ حالانکہ بات یہ ہے قرآن مرنے کے بعد کے لئے ایک انکشاف بھی ہے اور پروانہ راہداری بھی، لیکن اس کے لئے بنیاد زندگی میں زندوں کو مہیا کرتا ہے۔ جو لوگ اسے اسقاط یا مردے کے ہمراہ قبر میں رکھنے یا ان کی قبروں پر تلاوت کرنے یا جمعرات، ساتے اور چالیسویں یا سالانہ عرسوں کا مصرف بنا چکے ہیں ، یقین کیجئے انہوں نے قرآن کی کوئی خدمت نہیں کی، جو لوگ زندگی میں قرآن کو ناراض رکھتے رہے ہیں ، مرنے کے بعد قرآن ان کے خلاف مقدمہ دائر کرے گا بخشش کے سامان نہیں کرے گا۔ ﴿یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقرآن مَھْجُوْرًا﴾ (قرآن)
بزرگوں کی ارواح:
باقی رہا بزرگوں کی ارواح دینے کا سلسلہ؟ سو ہمارے نزدیک یہ فتنہ سے خالی نہیں ہے، اس کی کچھ وجو ہیں :
۱۔ جو لوگ ان کی ارواح دیتے ہیں ، ان کے پس پردہ ’’بزرگوں کی خدماتِ دینیہ‘‘ کا احساس کار فرما کم ہوتا ہے، نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کی نفسیات زیادہ ہوتی ہیں ۔
۲۔ یہ لوگ عموماً ان کو غلطیوں سے پاک مانتے ہیں ،ا س لئے ان کی بخشش یا ترقی درجات ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتی، بلکہ شخصیت پرستانہ ذہنیت غیر شعوری طور پر کام کر رہی ہوتی ہے۔
۳۔ دراصل اس قوسم کے تعاون کے حق دار اپنے وہ اقربا ہوتے ہیں جو فوت ہو چکے ہوتے ہیں مگر ان کے سلسلے میں یہ لوگ اتنے چاک و چوبند نہیں ہوتے جتنے ’’پیرانِ عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کے سلسلے میں ہوتے ہیں ۔ غور فرما لیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔
۴. قرآن و سنت ہمارے سامنے ہیں اور تاریخی شہادتیں الگ موجود ہیں ، کہ اسلاف کے حق میں دعا و استغفار کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن ان کی ارواح دینے کے لئے کھانے والے تقسیم کرنے یا بلا کر کھانے کا کوئی دستور نہیں تھا۔ اس لئے ہم بزرگوں کے سلسلے میں ’’ایصالِ ثواب‘‘ کی باتیں فریب نفس تصور کرتے ہیں ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو ثواب: (ب)حضور نے اپنی امت کی طرف سے تو قربانی دی ہے لیکن صحابہ اور ائمہ دین نے کبھی بھی حضور کی ارواح دینے کا حوصلہ نہیں کیا۔ ہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے قربانی دیا کرتے تھے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو