کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 33
تلاوت قرآن کے بارے میں جو روایتیں منقول ہیں ،ان کے بارے میں ائمہ نے تصریح فرمائی ہے کہ ایک بھی صحیح یا حسن نہیں ہے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ اور استاذ امام علی متقی (ف ۹۷۵؁ھ)’’ردِّ بدعات التعزیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مسجد، قبرستان یا گھر میں میت کے لئے قرآن خوانی بدعت مذمومہ ہے۔ الاجتماع للقرأۃ للمیت بالتخصیص فی المقبرۃ او المسجد او البیت بدعۃ مزمومۃ (رد بدعات التعزیۃ) خود عبد الحق محدث دہلوی (ف ۱۰۵۲؁ھ)یہی لکھتے ہیں کہ اسلاف میں اس قرآن خوانی کا کوئی دستور نہ تھا۔ عادت نبود کہ برائے میت جمع شوندو قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسرِ گورو نہ غیر آں وایں مجموع بدعت است (مدارج النبوت) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ف ۱۱۷۶؁ھ)بھی یہی فرماتے ہیں : در عرب اول وجود نہ نبود (وصیت نامہ) امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضور کا اس طرح کا کوئی دستور نہ تھا۔ ولم یکن من ھدیہ ان یجتمع للعزاء والقراءۃ القرآن لا عند القبر ولا عند غیرہ (زاد المعاد) خاص کر حافظوں کو پیسے دے کر قرآن خوانی کی سخت مذمت کی گئی ہے، امام اوزاعی دمشقی حنفی (ف ۷۴۶؁ھ)لکھتے ہیں کہ: یہ کام کسی امام نے نہیں کیا اور اس کے ناجائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ واما استیجار قوم یقرؤن القرآن ویھدوہ للمیت فھدا لم لفعلہ احد من السلف ولا امر بہ احد من ائمۃ الدین ولا رخض فیہ والاستیجار عن نفس التلاوۃ غیر جائز بلا خلاف (شرح عقیدہ طحاویہ ص ۳۸۶) حنفیوں کے مشہور فتاویٰ بزازیہ میں ہے کہ قرآن خوانی کے لئے فقراء اور صلحاء کو جمع کرنا اور ختم کرنا مکروہ ہے۔ ویکرہ....... اتخاذ الدعوۃ بقراءۃ القرآن وجمع الصلحاء وانفقراء للختم او القرأۃ