کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 32
ان امی توفیت وانا غائب عنھا فھل ینفعھا ان تصدقت عنھا قال نعم (بخاری)وفی رواتہ ان امی افئلتت نفسھا ولم تفوص واظنھا لو تکلمت تصدقت (بخاری)
مثلاً حضرت ابن عمر پوچھتے ہیں کہ حجور صلی اللہ علیہ وسلم ! عمرو بن عاص نے سو اونٹوں کی قربانی کی نذر مانی تھی اور ہشام نے ۵۵ کی (تو کیا)ان کی طرف سے دیا جا سکتا ہے)فرمایا: اگر اسلام پر ہوتا تو پھر یہ ان کو نفع دیتا۔ فلو اقرّبا لتوحید الخ (احمد)
بعض صحابہ نے پوچھا کہ حضور میری ماں کے ذمے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے قضا دوں ؟ فرمایا: اگر ان کو قرضہ دینا ہوتا تو ادا کرتے؟ میں نے کہا ہاں ! فرمایا: تو اللہ کا قرضہ تو زیادہ حق دار ہے کہ ادا کیا جائے۔
انا قضیھا عنھا قال فدین اللّٰہ احق ان یقضی (صحیحین)
بالکل اسی قسم کی بات حج کے بارے میں ہوئی تو آپ نے بھی وہی جواب دیا (ملاحظہ ہو بخاری عن ابن عباس)
غور فرمائیے! ان میں سے کون سی ایسی روایت ہے جس سے رائج الوقت ایصالِ ثواب نکل سکتا ہے؟ یہاں تو نیابت کی بات ہو رہی ہے کہ ان کی جگہ ہم کر دیں ، اثابت کی نہیں کہ اس کو ثواب بھیج دیں ۔
معلوم ہوتا ہے کہ میت کو دوسرے کے عمل سے نفع پہنچنے کی صحت کا اسلاف نے جو اعتراف کیا ہے بعد کے بزرگوں نے اس کو ’’ایصالِ ثواب‘‘ پر محمول کیا ہے، بہرحال اخذ نتیجہ میں مسامحت کی یہ بات ہے، واقعہ نہیں ہے۔
روزہ، حج اور زکوٰۃ اگر میت کی طرف سے ادا کیا جائے تو وہ ان کی طرف سے ’’ادا‘‘ تصور کیا جائے گا کیونکہ یہ نیابت کی صورتیں ہیں اثابت (ایصالِ ثواب‘ کی نہیں ہیں ، حج میت کی طرف سے ادا کیا گیا ہے کہ اب ان کے ذمے سے ساقط ہو گیا، اسی طرح روزہ اور زکوٰۃ اور صدقات کی بات ہے، یہ نہیں کہ اس کا ثواب ان کو ارسال کیا جاتا ہے۔ جیسے مرنے والے کے قرض کی بات ہے کہ میت کی طرف سے اگر کوئی قرضہ چکا دیتا ہے تو وہ قرضہ میت کی طرف سے تو ساقط ہو جاتا ہے لیکن اس کو کوئی شخص ’’ایصالِ ثواب‘‘ سے تعبیر نہیں کرتا۔
بہرحال ہم اسے ’’ایصالِ ثواب‘‘ نہیں تصور کرتے۔ یہ خانہ ساز بلٹیاں کہاں سے درآمد کی گئی ہیں ، ہمیں کچھ پتہ نہیں ۔