کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 31
صُوْمِیْ عَں اُمِّکَ (بخاری) حُجِّیْ عَنْھَا فَھَلْ یَنْفَعُھَا اِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا (بخاری) فَلَوْ اَقَرَّ بِالتَّوْحِیْدِ فَصُمْتَ وَتَصَدَّقْتَ عَنْہُ نَفْعَہ ذٰلِکَ (احمد) ان باتوں کو معروف ایصال ثواب پر محمول کرنا محاورات عرب کا خون کرنا ہے۔ مندرجہ بالا تمام صورتوں میں ’’نیابت‘‘ تو ہے ’’اثابت‘‘ (ایصالِ ثواب)نہیں ہے، لیکن افسوس بعض فقہاء اور علماء ان سے برعکس اخذ کرتے ہیں ، یعنی اثابت تو مانتے ہیں نیابت نہیں مانتے۔ کما مر ہاں ایصال ثواب کی قسم کی کچھ باتیں بعض رہنماؤں سے ضرور منقول ہیں لیکن قرآن و حدیث میں ان کا کوئی ثبوت اور سراغ نہیں ملتا۔ ؎ دَعْ عَنْکَ اٰرَاء الرِّجَالِ وَقَوْلھم قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَزْکٰی وَاَطْھَر ایصال ثواب کے نظریہ اور خصوصی تعامل نے کچھ اس قسم کا گھپلا کر دیا ہے کہ اب اس اصطلاح سے وحشت ہونے لگی ہے۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ: کسی کارِ خیر سے کسی میت و نفع پہنچنا اور بات ہے اور ’’ایصالِ ثواب‘‘ کی خصوصی بلیٹوں کا تصور بالکل دوسری چیز ہے۔ جن ائمہ نے معتزلیوں کی تردید کی ہے، وہ دراصل معتزلیوں کے اس نظریہ کی بناء پر ہے کہ زندوں کی طرف سے مردوں کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور بس۔ ظاہر ہے اس باطل نظریہ کی تردید ضروری تھی۔ مثلاً دیکھیے! آپ میت کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں یا استغفار کرتے ہیں ، اس کو ’’ایصالِ ثواب‘‘ پر محمول کرنے کی کیا تُک ہے؟ یا یہ کہ کسی نے علم کو عام کیا، صدقہ جاریہ چھوڑا، قرآن حکیم لے کے لوگوں میں عام کیا، مسجد بنائی، سرائے تعمیر کی، نہر یا کنواں لگوایا، اب ظاہر ہے کہ وفات کے بعد ان کا ثواب خود بخود ان کو ملتا رہتا ہے۔ اس کو اس ایصالِ ثواب سے کیا تعلق جو رائج اور متداول ہے۔ مثلاً صدقہ و خیرات کی بات ہے: صحابی پوچھتا ہے کہ میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے ، اگر وہ بول سکتی تو ضرور خیرات کرتی، کیا میں اس کی طرف سے ایسا کروں ؟ تو کیا اس کو فائدہ پہنچ پائیگا؟ فرمایا ہاں ؟