کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 30
وانتفح بصلٰوۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثانی عشرھا ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لمن صلی وحدہ الا رجل یتصدق علٰی ھذا فیصلی معہ فقد حصل لہ فضل الجماعۃ بفعل الغیر ثالث عشرھا ان الانسان تبرأ ذمتہ من دیون الخلق اذا قضاھا قاضٍ عنہ ..... رابع عشرھا ان من علیہ بتعات ومظالم اذا حلل منھا سقطت عنہ ..... خامس عشرھا ان الجار الصالح ینفع فی المعیا والممات کما جاء فی الاثر ...... سادس عشرھا ان جلیس اھل الذکر یرحم بھم وھو لم یکن منھم ولم یجلس لذالک بل لحاجۃ عرضت لہ ..... سابع عشرھا الصلٰوۃ علی المیت والدعاء لہ فی الصلٰوۃ انتفاع للمیت بصلوٰۃ الحی علیہ ........... ثامن عشرھا ان الجمعۃ تحصل باجتماع العدد وکذلک الجماعۃ لکثرۃ العدد وھو للبعض بالبعض تاسع عشرھا ان اللّٰہ تعالٰی قال بنیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم.... عشروھا ان صدقۃ الفطر تجب علی الصغیر وغیرہ ممن یمونہ الرجل فانہ ینتفع بذالک من یخرج عنہ ولا سعی لہ فیھا حادی وعشروھا ان الذکوٰۃ تجب فی مال الصبی والمجنون ویثاب علی ذٰلک ولا سعی لہ الخ (جمل علی الجلالین ص ۲۳۶/۴) ہمارے نزدیک حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی یہ اصطلاح یعنی ’’انتفاع میت‘‘ ایصال ثواب کی بہ نسبت احوط ہے۔ کیونکہ متداول اصطلاح ’’ایصال ثواب‘‘ ایک تو بدنام ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ایک رسومات بدعیہ کا نام بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن احادیث سے ’’ایصالِ ثواب‘‘ اخذ کیا گیا ہے، معروف معنوں میں ’ایصالِ ثواب‘ ان سے اخذ نہیں ہوتا، بلکہ انتفاع اخذ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ’’وصول فائدہ‘‘ یا وصول نفع کہہ سکتے ہیں ۔ دیکھیے! دعا استغفار، اور صدقہ جاریہ وغیرہ کی صورتیں ہیں کہ ان سے ’’ایصالِ ثواب‘‘ نہیں ، صرف سفارش ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان سے میت کو نفع تو ہوتا ہے مگر یہ ایصالِ ثواب والی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ: بعض احادیث سے نیابت ثابت ہوتی ہے کہ میت کی طرف سے ادا کیا جائے۔ یعنی اس کا نائب اور قائم مقام ہو کر تو ادا ہو جاتا ہے، جیسے قرضہ: مثلاً روزے یا حج کی حدیثیں ہیں کہ حکم ہوا کہ میت کی طرف سے آپ ادا کریں ۔