کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 3
کتاب: محدث شمارہ 44
مصنف: ڈاکٹر عبد الرحمٰن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور
ترجمہ:
فکر و نظر
اندرونِ ملک۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار
مملکت پاکستان، پاکستانی ملت اسلامیہ کے حسین اور مبارک خوابوں کی ایک مبارک تعبیر تصور کی گئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ بات کچھ بے جا توقع بھی نہیں ہے، اگر علامہ اقبال، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح، اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے! کو مہلت ملتی تو متوقع تھا کہ مسلمانانِ پاک و ہند اپنی آنکھوں سے وہ پاکستان ضرور دیکھ لیتے جس کا روزِ اول نعرہ لگایا گیا تھا، کیونکہ یہ عظیم لوگ تھے، وہ اسلامی ریاست کے تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ؎ قولِ مرداں جاں دارد۔
پنجابی کہاوت ہے:
گھر والا گھر نہیں مینوں (مجھے)کسی دا (کا)ڈر نہیں !
جنہوں نے بڑی محنت سے پاکستان حاصل کیا تھا اور جن کو اپنی زبان اور پوزیشن کا احساس تھا، جب وہ دنیا سے لد گئے تو یہ مملکت ایک حد تک یتیم ہو گئی، جو اس کے وارث بنے، ان بے رحموں نے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جو عموماً خدا سے غافل لوگ ایک یتیم کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اسے ملتِ اسلامیہ کی میراث تصور کرنے کے بجائے ان بھوکے ظالموں نے اسے ایک دستر خوان سمجھا، اور مملکت کے عوام کو ’’بھیڑیں ‘‘ جب اور جدھر کو چاہتے انہیں ہانک کر لے جاتے۔ اور یہ سماں ابھی تک طاری ہے۔
رہنما کم آئے ہیں ۔ مداری زیادہ، ملّتِ اسلامیہ کا اصلی درد رکھنے والے تو بہت کم دیکھے بہروپئے اور مکار زیادہ، ان حریصانِ اقتدار نے اپنے مستقبل کے تحفظ کے لئے مملکت کا مستقبل تک بیچنے سے دریغ نہیں کیا، اس کی کھیر تو بارہا بانٹی لیکن اس کے استحکام اور تعمیر و ترقی کے لئے سنجیدگی سے کبھی کوشش بھی نہ کی، عوام کو اندھیرے میں رکھ کر ہمیشہ ان کو نادان بناتے رہے لیکن آزاد قوموں کی طرح ان کو احساس اور شعور کی دولت سے نہ نوازا، کیونکہ اس کے بعد ان کے اپنے بتوں کی جدائی خطرے میں پڑ جاتی ہے، اقبال پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے، کیا خوب