کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 29
او ثواب العمل: فعند الجمہور یصل ثواب العمل نفسہ وعند بعض الحنفیۃ انما یصل ثواب الانفاق (کتاب الروح ص ۱۸۸) ایک یہ اختلاف ہے کہ: اس کے لئے لفظوں میں نیت کرنا ضروری ہے یا صرف دل کی نیت کافی ہے۔ فھل تشترطون فی وصول الثواب ان یھدیہ بلفظہ ام یکفی فی وصولہ مجرد نیۃ العامل ان یھدیھا الی الغیر (کتاب الروح لابن القیم رحمہ اللّٰہ ص ۲۲۵) الغرض ایصالِ ثواب کے سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے، امام ابن القیم تمام نیک اعمال کے ایصال ثواب کے قائل ہیں (کتاب الروح)علامہ مبارک پوری کا کہنا ہے کہ جو مرفوع حدیثیں اس بات میں نقل کی جاتی ہیں ۔ وہ سب ضعیف ہیں (کتاب الجنائز ص ۱۰۳) علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے لئے ’’میت کے انتتفاع‘‘ کی اصطلاح استعمال ی ہے۔ ایصالِ ثواب کی نہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ دوسرے کے عمل سے مردے کو فائدہ پہنچتا ہے: قال شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ : من اعتقد ان الانسان لا ینتفح الا بعملہ فقد خرق الاجماع وذلک باطل من وجوہ کثیرۃ احدھا ان الانسان ینتفع بدعاء غیرہ وھو انننفاع بعمل الغیر ثانیھا ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یشفع لاھل الموقف فی الحساب ثم لاھل الجنۃ فی دخولھا ثالثا لاھل الکبائر فی الخروج من النار...... رابعھا ان الملائکۃ یدعون ویستغفرون لمن فی الارض وذاک منفعۃ بعمل الغیر خامسھا ان اللّٰہ تعالٰی یخرج من النار من لم یعمل خیر اقط بمحض رحمتہ وھذا انتتفاع بغیر عملھم سادسھا ان اولاد المومنین یدخلون الجنۃ بعمل اٰباءھم ........ وسابعھا قال تعالٰی فی قصۃ الغلامین الیتیمین وکان ابوھما فانتفعھا بصلاح ابیھما ولیس من سعیھا ثامنھا ان المیت ینتفع بالصدقۃ عنہ ..... تاسعھا ان الحج المفروض یسقط عن المیت بحج ولیہ بنص السنۃ ....... عاشرھا ان الحج المنذور او الصوم المنذور یسقط عن المیت بعمل غیرہ ...... حادی عشرھا المدین قد امتنع صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الصلٰوۃ علیہ حتی قضی دینہ ابو قتادۃ وقضی دین الاخر علی ابن ابی طالب