کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 28
والنیابۃ تجری فی النوع الاول فی حالتی الاختیار والضرورۃ لحصول المقصودۃ بفعل النائب ولا تجری فی النوع الثانی بحال ان المقصود وھو اتاب النفس لا یحصل بہ وتجری فی النوع الثالث عند العجز (ھدایہ کتاب الحج ص ۲۹۶،۱)
واختلفوا فی العبادۃ البدنیۃ کالصوم والصلوٰۃ وقرأۃ القرآن الذکر فمذھب الامام احمد وجمہور السلف وصولھا وھو قول لبعض اصحاب ابی حنیفۃ (کتاب الروح ص ۱۸۸)
پھر اس میں اختلاف ہے کہ نفلی عبادات یا فرضی کا ثواب بھی؟ اگر فرضی کا ہے تو کیا فرض اس کا ساقط بھی ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ پھر یہ صرف مردوں کے لئے ہے یا زندہ کے لئے بھی؟
ثم قیل یجوز الاثابۃ فی الفریضۃ ایضا ای یصل الثواب ولا تسقط الفریضۃ عن ذمۃ من اصابہ الثواب وقیل ان الاثابۃ منحصرۃ فی النافلۃ ثم قیل ان الاثابۃ ان تکون للمیت فقط وقیل للمیت والحی کلیھما (العرف الشذی ص ۲۷۹)
یہی حال روزے کا ہے۔
فیقال فی حدیث الباب انہ صوم الاثابۃ لا الینابۃ ص ۲۷۹ / ایضا
لیکن امام احمد اور امام اسحاق فرماتے ہیں ، نذری روزہ ہو ٹھیک ہے ورنہ روزہ کی بجائے فدیہ کے طور پر کھانا کھلایا جائے۔
قالا اذا کان علی المیت نذر صیام یصام عنہ واذا کان علیہ قضاء رمضان اطعم عنہ (ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ص ۳/۲)
امام مالک، امام سفیان ثوری اور امام شافعی فرماتے ہیں روزہ میں نیابت جائز ہی نہیں ہے۔
وقال مالک وسفیان والشافعی لا یصوم احد عن احد (ایضا)
امام شافعی کا دعویٰ ہے کہ:
ایصال ثواب صرف دعا اور صدقہ کا ہے اور نہیں ۔
کان یقول الشافعی لا یصح الاثابۃ الا اثابۃ الدعا والصدقۃ ولا یمکن ایصال ثواب تلاوۃ القرآن (العرف الذی ص ۲۸۰)
ایک اور اختلاف یہ ہے کہ حج اور صدقہ کا ثواب ان کے خرچ کا ثواب ہے یا ان کے عمل کرنے کا؟
والصدقۃ والحج علی نزاع ما الذی یصل من ثوابہ ھل ھو ثواب الانفاق