کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 27
انما بہ مجرد تفضل اللّٰہ واحسانہ (کتاب الروح ص ۱۹۶)
۴۔ اسباب ثواب کا ایثار مکروہ ہے یعنی اسباب قرب مثلاً صف اول کا ایثار کرنا کہ اس کی جگہ فلاں کھڑا ہو مثلاً باپ۔
فالایثار باسباب الثواب مکروہ وھو الایثار ابلقرب فکیف الایثار بنفس الثواب الذی ھو غایۃ الخ (کتاب الروح ص ۱۹۶-۱۹۷)
۵۔ اگر یہ مردہ کے لئے جائز ہے تو زندوں کے لئے بھی یہ ہدیہ جائز ہونا چاہئے، اسی طرح کچھ ثواب اس کو اور کچھ فلاں کو مثلاً
لو ساغ الاھداء الی المیت لساغ نقل الثواب والاھداء الی الحی (ایضا ص ۱۹۷)لوساغ ذلک ساغ لھذا النصف الثواب وربعہ وقیراط منہ (ایضا)
۶۔ تکلیفِ عمل امتحان ہے اور اس سے مطلوب یہ ہے کہ وہ پرچہ خود کرے، دوسرے کا کیا ہوا دوسرے کے کھاتے میں نہیں جاتا۔
ان التکالیف امتحان وابتلاء لا تقبل البدل فان المقصود منھا عین المکلف العامل المامور المنھی فلا یبدل المکلف المستحسن بغیرہ ولا ینوب غیرہ عنہ فی ذلک (ایضا)
۷۔ یہی حال بیمار، ننگے، بھوکے اور پیاسے کا ہے کہ اپنے ہی کھائے پئے اور پہنے کچھ بنتا ہے۔ دوسرے کے کچھ کام نہیں آتا۔
فان المریض لا ینوب عنہ غیرہ فی شرب الدواء والجائع والظمان والعاری لا ینوب عنہ غیرہ فی الاکل والشرب واللباس (۱۹۷-۱۹۸)
۸۔ اگر یہ بات مفید اورجائز ہوتی تو زندہ کی تو بہ بھی مردے کی توبہ ہو سکتی۔
لو نفعہ عمل غیرہ لنفعہ توبتہ عنہ (ایضا ۱۹۸)
۹۔ اسی طرح اسلام قبول کرنا، بھی مردے کے لئے قبول ہوتا (ص ۱۹۸)
امام ابن القیم نے ان سب کا جواب دیا ہے ملاحظہ ہو کتاب الروح۔
اور جو لوگ ایصالِ ثواب کے قائل ہیں : ان میں اس کی نوعیت میں اختلاف ہے مثلاً۔
عبادت بدنی کا ثواب دیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ حنفی کہتے ہیں ۔ ان میں نیابت تو جائز نہیں ثواب دیا جا سکتا ہے۔
العبادات انواع مالیۃ محضۃ کالزکوٰۃ وبدنیۃ محضۃ کالصلوٰۃ ومرکبۃ منھما کالحج