کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 18
امام راغب اصفہانی (ف ۵۰۲؁ھ)فرماتے ہیں کہ: ظلم کی تین قسمیں ہیں (۱)خدا کے ساتھ بے انصافی (۲)ایک دوسرے کے ساتھ بے انصافی (۳)اور اپنی ذات کے ساتھ بے انصافی۔ ظلم بین الانسان وبین اللّٰہ تعالٰی واعظمہ الکفر والشرک والنفاق، ظلم بینہ وبین الناس، وظلم بینہ وبین نفسہ (مفردات) امام موصوف اس موقع پر ایک عجیب اور معنی خیز بات کہتے ہیں ، فرماتے ہیں یہ تینوں قسم کا ظلم در حقیقت ظلم علی النفس ہی ہے ....... فرماتے ہیں اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ ظالم اپنے ظلم کی ابتداء ہمیشہ اپنی ذات سے کرتا ہے (مفردات مترجم) ظلم اور قرآن: قرآن حمید میں اس موضوع پر جو کچھ آیا ہے اس کا سلسلہ کافی طویل ہے۔ یہاں پر ہم اس کا صرف اتنا حصہ پیش کریں گے جتنا باقی ماندہ کا بھی کفیل ہو سکے۔ شرک: شرک سب سے بڑا ظلم اور بے انصافی ہے: (کیونکہ اس سے بڑھ کر بے محل اور بے موقع بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ: کسی کو اس کی خدائی میں شریک مان لیا جائے۔ ﴿اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ﴾(پ۲۱۔ لقمان۔ ع۲) تکذیبِ آیات: اللہ کی آیات کو جھٹلانا، اندھا پن اور اندھیرے کی بات ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ بُکْمٌ فِی الظُّلُمَاتِ﴾ (پ۷۔ الانعام۔ ع۴) ھویٰ ونفس کے بندے: نفس اور ہویٰ کے بندے ظالم لوگ ہیں ۔ ﴿بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَھْوَآءَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾(پ۲۱۔ روم ع۴) خدا کے بجائے نفس و طاغوت کی غلامی پر قناعت، رجوع الی الحق کی توفیق سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ ﴿فَمَنْ یَّھْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللہُ﴾ (ایضا) حق کے خلاف سرگوشیاں : یہ انہی ظالم اور بے انصاف لوگوں کا کام ہے کہ خفیہ میٹنگیں کر کے حق کی راہ روکنے کی تدبیریں کرتے ہیں ۔ ﴿وَاَسَرُّوْا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْج اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ﴾ (پ۸۔ اعراف۔ ع۱) عیش و عشرت میں مگن: وہ بھی ظالم ہی تھے جو دادِ عیش دیتے رہے۔