کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 17
ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ: اسے حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ایک آزمائش کا نشان مقرر کیا گیا تھا۔ غرض یہ تھی کہ حضرت آدم پر واضح ہو جائے کہ: ابن آدم کو کچھ پابندیاں بھی درپیش ہیں ۔ اگر ان کے سلسلے میں اختلال ممکن ہے تو پھر ان کی جگہ جنگ نہیں دنیا ہے۔ جنت دار الجزاء ہے۔ دار العمل نہیں ہے۔ گو اس خروج کا محرک معصومانہ لغزش ہو یا مجرمانہ سازش اس کا سبب ہو، بھول ہو یا جذبۂ نیک نیتی کی لپک اس کا باعث ہو، بہرحال اس سے ثابت ہو گیا کہ جنت میں انسان کا احکامِ الٰہی اور پابندیوں پر کما حقہ پور اترنا بالکل مشکل ہے۔ اس لئے ان کو حکم ہوا کہ اب آپ یہاں سے تشریف لے جائیں ۔
فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (اور ظالموں میں سے ہو جانا، کہیں ان میں سے نہ ہو جانا جنہوں نے ظلم کیا یا اپنے آپ سے بے انصافی کی)بریکٹ میں ہم نے اس جملے کے سب محتمل معنی ذکر کر دیئے ہیں ، جو یہاں سب ممکن ہو سکتے ہیں ۔ ایک معنی یہ ہوئے کہ: جو ظالم ہیں ، ان میں سے آپ نہ ہوں ، یعنی آپ بھی بے انصاف نہ بنیں ، دوسرا یہ کہ اپنے آپ سے بے انصافی نہ کریں ۔ غلط راہ اختیار کر کے اپنا انجام خراب نہ کریں ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ: انسان اگر اپنے ساتھ بھی بے انصافی کرنا چاہے تو عند اللہ وہ اس کا بھی مجاز نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنا مالک نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی اس کے پاس خدا کی طرف سے امانت ہے۔ امانت میں خیانت کرنا سب کے نزدیک برا ہے۔
ظلم محل اور موقعہ کے اعتبار سے اس لفظ کے معنی میں بڑا تنوع ہے۔ مگر سب سے ’’قدر مشترک‘‘ بے محل اور بے موقع کسی چیز کا استعمال ہے (وضع الشیءِ فی غیر موضعہ۔ مختار الصحاح ومفردات)وہ بصورت زیادتی ہو یا کمی (مفردات راغب)روشنی کا جاتے رہنا، جہالت، شرک، فسق و فجور، زیادتی کرنا، اندھا پن، کمی کرنا، شرارت، راستہ سے ہٹ جانا، رات کے پہلے حصے کی تاریکی، قمری ماہ کی آخری تین راتیں ، غصہ، ترچھی نگاہ، غصے کی نظر کٹھن، داد خواہی، عذاب، بہت اندھیرا، نافرمانی۔ ’’ظ ل م‘‘ کے مادہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (مفردات، مختار الصحاح، منجد، منتہی الاِرب فی لغات العرب وغیرہ)
اس لفظ کے مختلف معانی آپ کے سامنے رکھنے سے غرض یہ ہے کہ، آپ غور فرمائیں کہ ؎
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی، کے مصداق اس میں خیر و خوبی کی کوئی رمق بھی کہیں نظر آتی ہے؟ حاشا وکلا!