کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 16
ایک شخص کے پاس کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں مگر لگوں کو دیتا نہیں بلکہ بھوک پیاس سے کوئی مر جاتا ہے تو امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے خونبہا وصول کیا جائے گا کیونکہ اس کی سنگ دلی کی وجہ سے وہ مرا ہے۔ الغرض وہ راستے اور کیفیات جو کسی ناجائز بات کے ارتکاب کا ذریعہ بن سکتی ہیں ، وہ راستے اور واسطے یا کیفیتیں بھی حرام، مکروہ اور ناجائز ہو جاتی ہیں اور جو امور جائز اور مبارک بات تک پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ بنتے ہیں ، وہ بھی مبارک، جائز اور محمود بن جاتے ہیں ، اس بات کو یاد رکھنے سے انسان بہت سے امور کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ: ان کا بالآخر انجام کیا ہو گا اور ان کی تان کہاں جا کر ٹوٹے گی۔ اس لئے اب ان کا کیا حکم ہونا چاہئے، جائز یا ناجائز؟ بہرحال قرآن حکیم نے ’وَلَا تَقْرَبَا‘ کہہ کر اس بہت بڑی حکمت کی طرف اشارہ کر دیا ہے، اگر آپ چاہیں تو اس اصول کے ذریعے اپنے اور اپنے گرد و پیش کی تمام تحریکات سکنات اور تعامل پر علی وجہ البصیرت تبصرہ اور محاکمہ کر سکتے ہیں ۔ شجرۃ وہ شجرۃ (درخت)کیا شے ہے، جس سے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو روک دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں اس سے مراد گندم، انجیر، انگور وغیرہ وغیرہ ہے مگر اس کی دلیل کوئی نہیں بعض مجددین کا خیال ہے کہ: اس سے مراد ’’بدی‘‘ ہے، دلیل میں مثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ (سورۃ ابراہیم)پیش کرتے ہیں ، مگر یہ بھی ایک تکلف ہے۔ کیونکہ شیطان نے ورغلاتے ہوئے آدم سے کہا تھا کہ اس سے آپ کو روک دینے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے آپ کو دوام حاصل نہ ہو جائے یا آپ فرشتے نہ بن جائیں ۔ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ۔ ظاہر ہے کہ حضرت آدم کو اتنا تو بہرحال معلوم تھا کہ بدی اس کا ذریعہ نہیں بن سکتی جس کی طرف شیطان نے دعوت دی تھی اس کے علاوہ جس طرح شجرۃ خبیثۃ کا ذکر آیا ہے اسی طرح شجرۃ ملعونۃ کا بھی آیا ہے (اسرائیل ع ۶)ایک درخت کو طعام الاثیم (دخان ع۳)شجرۃ تخرج فی اصل الجحیم (صافات ع۲)اسی طرح شجرۃ مبارکۃ (نور ع۵)شجرۃ تخرج من طور سینا (مومنون ع۱)بھی کہا گیا ہے۔ بہرحال ان آیات سے معلوم ہوا کہ درختوں کی یہ ساری اقسام، مجاز نہیں ۔ حقیقت بھی ہیں ۔ جب حقیقت ممکن ہے تو پھر مجاز کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟ صحیح یہ ہے کہ یہ بہرحال کوئی درخت تھا، وہ کون سا تھا؟ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔