کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 15
بنفسہ الثانی وسیلۃ الی المقصود۔ والنھی نوعان احدھما ما یکون المنھی عنہ مفسدۃ فی نفسہ والثانی ما یکون وسیلۃ الی المفسدۃ فصار سد الذرائع المقضیۃ الی الحرام احد ارباع الدین (اعلام الموقعین طبع ھند ص ۷۱،۲)
حضرت امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’اغاثۃ اللہفان‘‘ میں بھی اس پر خاص روشنی ڈالی ہے۔ جو دیدنی ہے بلکہ بعض لحاظ سے اعلام الموقعین سے بھی زیادہ طمانیت بخش ہے۔
وبالجملۃ فالمحرمات قسمان: مفاسد وذرائع موصلۃ الیھا مطلوبۃ الاعدام کما ان المفاسد مطلوبۃ الاعدام۔ والقربات نوعان: مصالح للعباد وذرائع موصلہ الیھا، ففتح باب ٓلذرائع فی النوع الاول کسد باب الذرائع فی النوع الثانی وکلاھما مناقص لما جاءت بہ الشریعۃ (اغاثۃ اللھفان ص ۳۷۰،۱)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حرانی نے اس موضوع پر جس رسالے میں سب سے زیادہ روشنی ڈالی ہے اس کا نام اقامۃ الدلیل علٰی ابطال التحلیل ہے۔ تقریباً ۲۲۶ صفحات پر مشتمل ہے اور خوب ہے تاہم اکثر مسائل وہی ہیں جو ابن القیم رحمہ اللہ نے بتا دیئے ہیں ۔ آپ نے ایک مقام پر ’’سد ذرائع‘‘ کے سلسلے میں جو چند سطریں لکھی ہیں ، وہ نہایت بصیرت افروز ہیں فرماتے ہیں ۔
الغرض ذرائع اور مادہ شر کے رخنے بند کرنے میں شریعت کے بہت سے ایسے ہی اسرار ہیں جن کا علم انسان کی جبلی کمزوریوں سے واقف شارع کو ہی ہو سکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص شارع سے زیادہ عقلمند بنتا ہے، پہلے کسی شے میں علّتِ تحریم فرض کرتا ہے، پھر اس میں تاویل کر کے محظور کو مباح ٹھہراتا ہے تو ایسا شخص
’’امرِ رب سے جاہل ہے، اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، وہ نہیں سمجھتا کہ اگر وہ کفر سے بچ بھی جائے تاہم بدعت، فسق قلتِ فہم اور دین میں بے بصیرتی سے نجات نہیں پاسکتا (ابن تیمیہ رحمہ اللہ ص ۷۳۳ بحوالہ اقامت الدلیل ص۱۴۰)
حضرت امام احمد کے نزدیک ایسے دکاندار سے سودا لینا جائز نہیں ہے جو اپنے ہمسایہ دکاندار کو نقصان پہنچانے کے لئے چیزوں کی قیمتیں گھٹا کر بیچتا ہے، کیونکہ ان کی غرض عامۂ خلائق کو نفع پہنچانا نہیں ہے بلکہ ضرر پہنچانا ہے۔
اسی طرح فتنہ و فساد کے عہد میں اسلحہ کی فروخت بھی جائز نہیں ، کیونکہ اس سے فتنہ و فساد کی آگ اور تیز ہونے کا امکان ہے۔