کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 14
فنقول الفعل والقول المفضی الی المفسدۃ قسمان احدھما ان یکون وضعہ للافضاء الیھا کشرب المسکر المفضی الی مفسدۃ السکر...... والثانی ان تکون موضوعۃ للافضاء الی امر جائز او مستحب فیتخذ وسیلۃ الی المحرم اما بقصدہ او بغیر قصد منہ فالاول کمن یعقد النکاح قاصدا بہ التحلیل (ص ۶۳،۲ طبع ہند):
پھر فرمایا کہ اس قسم کے ذرائع دو نوع کے ہیں ۔ ایک یہ کہ مصلحت فعل، اس کے مفسدہ سے ارجح ہو، دوسرا یہ کہ مفسدہ، مصلحت سے ارجح ہو۔
احدھما ان تکون مصلحہ الفعل ارجع من مفسدۃ والثانی ان تکون مفسدتہ راجحۃ علی مصلحتہ (ص ۶۳،۲)
اب اس کے چار اقسام بن گئے ہیں (۱)یہ ذریعہ، مفسدہ تک پہنچائے (۲)یا یہ کہ مباح تک پہنچائے، آگے وہ مفسدہ کا ذریعہ بن جائے (۳)تیسرا یہ کہ امر مستحب تک پہنچائے، آگے وہ مفسدہ تک پہنچا دے (۴)چوتھا یہ کہ: مباح تک کا ذریعہ، کبھی ایسے مفسدہ کے لئے ذریعہ بن جاتا ہے۔ جس سے مصلحت فعل ارجح ہوتی ہے۔
الاول وسیلۃ موضوعۃ للافضاء الی المفسدۃ الثانی وسیلۃ موضوعۃ للمباح قصد بھا التوسل الی مفسدۃ مفضیۃ الیھا غالباً ومفسدتہ ارجح من مصلحتھا (الثالث وھو وسیلۃ موصلۃ الی المستحب ولکنھا موصلۃ الی المفسدۃ۔ کذابھا مشہ)الرابع وسیلۃ موضوعۃ للمباح وقد تفضی الی المفسدۃ ومصلحتھا ارجح من مفسدتھا ومثال الرابع النظر الی المخطویۃ (ص ۶۳،۲)
پھر فرمایا: یہ چوتھی قسم مباح یا مستحب یا واجب ہو سکتی ہے، باقی رہی پہلی؟ وہ مکروہ یا حرام ہے حسب درجات، ہاں درمیانی دو کی بات رہ جاتی ہے، فرمایا: وہ بھی صحیح یہ ہے کہ ممنوع ہیں ۔ پھر اس تقریباً ۹۹ مثالیں پیش کر کے اس کی ممنوعیت کو ثابت کیا ہے۔
فالشریعۃ جاءت باباحۃ ھذا القسم او استحبابہ او ایجابہ بحسب درجاتہ فی المصلحۃ وجاءت بالمنح من القسم الاول کراھۃ او تحریما بحسب درجاتہ فی المفسدۃ بقی النظر فی القسمین الوسط ھل ھما مما جاءت الشریعۃ باباحتھما او المنع منھما فنقول الدلالۃ علی المنع من وجوہ (ص ۶۳،۲)
اس مبحث کے آخر میں فرماتے ہیں کہ: تکلیف کا ۴/۱ سد ذرائع کا باب ہے کیونکہ وہ امر ہے یا نہی، امر دو قسم ہے، بنفسہ مقصود ہے یا وسیلۃ الی المقصود، اسی طرح نہی کا حال ہے، مفسدہ فی نفسہ کی وجہ سے ممنوع ہے یا وسیلہ الی المفسدہ کی بناء پر، بہرحال ذرائع کا مسئلہ دین کا ۴/۱ ہوا۔
وباب سد ذرائع احد ارباع التکلیف فانہ امر ونھی والامر نوعات احدھما مقصود