کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 13
الا ان یشاء اللّٰہ! وھو فعال لما یرید وعَلٰی کل شیءٍ قدیر۔ حیث شئتما (جہاں سے چاہو)سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پوری آزادی تھی، صرف ایک درخت کی بات تھی کہ اسے چھوڑ دو، اور جو چاہو اور جہاں سے چاہو، کھاؤ پیو اور مزے لو! ظاہر ہے یہ مقام ہقامِ بہشت ہی ہو سکتا ہے۔ ۲؎ لَا تَقْرَبَا (قریب بھی نہ جاؤ)ممنوع دراصل ایک شے ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بسا اوقات وہ امور بھی ممنوع قرار دے دیئے جاتے ہیں جو ممنوع چیز کے ارتکاب کا سبب بن جاتے ہیں ، یا ان سے کم از کم ممنوع چیز کے سلسلے میں مطلوب اجنبیت، پرہیز اور انقباض کے رنگ کے پھیکے پڑ جانے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ فقہاء کی زبان میں اسے ’’سدِّ ذریعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ: منع درخت کا کھانا اور چکھنا تھا، مگر فرمایا: اس کے پاس بھی نہ پھٹکو۔ یعنی اتنے فاصلے پر جا پہنچنا کہ اس کے بعد بس اگلا قدم وہاں ہی جا پڑے۔ تم پر بالکل حرام ہے: اس کے متعلق حضرت امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ (ف ۷۵۱ھ)حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ف ھ)اور حضرت امام شاطبی رحمہ اللہ (ف ۷۹۰؁ھ)نے تفصیل سے بحث کی ہے، خاص کر حضرت امام ابن القیم رحمہ اللہ نے جس جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ وہ بہت معیاری ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے۔ مقاصد کے حصول کے لئے کچھ وسائل، اسباب اور طریقے ہوتے ہیں ، اور وہ ان کے تابع ہوتے ہیں ، مقاصد اور مطالب حرام ہوتے ہیں ، تو اس سلسلے کے جتنے ذرائع اور وسائل ہوتے ہیں وہ بھی حرام ٹھہرتے ہیں ، اگر حلال اور جائز ہوتے تو وہ بھی جائز تصور کیے جاتے ہیں ۔ لما کانت المقاصد لا یتوصل الیھا الا باسباب وطرق تفضی الیھا کانت طرقھا واسبابھا تابعۃ لما معتبرۃ بھا....... فوسیلۃ المقصود تابعۃ للمقصود وکلاھما مقصود لکنہ مقصود قصد الغایات (اعلام الموقعین ص ۶۲،۲ طبع ھند) جو فعل یا قول کسی مفسدہ پر منتج ہوتا ہے، اس کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو براہِ راست حرام تک پہنچاتی ہے، جیسے شراب کا پینا کہ وہ نشہ جیسے مفسدہ ت پہنچا دیتا ہے۔ دوسری وہ جو پہلے تو جائز اور مستحب تک پہنچاتی ہے پھر ارادۃً یا بے ارادہ اسے حرام کے ارتکاب کے لئے ذریعہ بنا دیا جاتا ہے۔ قصد کی مثال جیسے ایک شخص نکاح کرتا ہے مگر بہ غرض حلالہ۔ ظاہر ہے نکاح تو حلال ہے مگر حلالے کے لئے نہیں ۔