کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 12
سے وجود میں آنے کے بعد اب تک جو مراحل ان کو درپیش رہے، اپنی حیثیت کے تعین اور تشخص کے لئے کافی حد تک ان کے لئے یہ سفر، پر خطر اور ہنگامی نوعیت کا رہا تھا، اس لئے ان سے فرمایا کہ: اب آپ یہاں آرام فرمائیں ۔ اس اسلوبِ بیان اور فحوائے کلام سے بھی یہی بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ یہ جنت ان کے لئے عارضی اقامت گاہ تھی۔ کچھ عرصہ بعد تفسیر کبیر دکھی تو الحمد للہ بات موافق نکلی: فھھنا لم یقبل اللّٰہ تعالٰی وھبت لک الجنۃ بل قال اسکنتک وانما لم یقل ذلک لانہ خلقہ لخلافۃ الارض فکان اسکان الجنۃ کالتقدمۃ عَلٰی ذلک (تفسیر کبیر ص ۲۲۹، ج۱) اس خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ: اس منزل میں حضرت حوا بھی حضرت آدم علیہ السلام کے شریکِ سفر اور شریک حٰات ہو گئی تھیں ، باقی رہی یہ بات کہ سجدۂ آدم سے پہلے اس کی تخلیق ہوئی تھی یا بعد میں ؟ سیاق آیات اور واقعۂ سجدہ سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق بعد میں ہوئی تھی، بعض مفسرین نے حضرت ابنِ مسعود اور ابنِ عباس کا قول بھی یہی نقل کیا ہے (ابن کثیر و تفسیر کبیر للرازی وغیرہ) سجدہ آدم کو ہوا، حوا کو نہیں ، کیونکہ عورت مرد کے تابع ہوتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے غرض ایک یہ بھی ہے کہ: صنف نازک ابنِ آدم کے لئے ایک ’’وجہ قرار‘‘ بھی ہے، مردوں پر ذمہ داریوں کا جو بوجھ ہے ان کی وجہ سے ان پر جو اضمحلال اور ملال جیسی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں ، ضروری تھا کہ ان کے لئے تسکین اور قرار کی کوئی صورت پیدا کی جائے، چنانچہ عورت کی تخلیق کی گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ عورت کا بذاتِ خود ایک مقام ہے اس لئے وہ بھی خدا کے ہاں جواب دہ ہے لیکن نظامِ دنیا کی حد تک اس کی حیثیت ایک معاون کی ہے پیشرو کی نہیں ہے۔ باقی رہی خدا کی عبادت اور رسول کی اطاعت کی بات؟ سو وہ اس معاملے میں مرد کی طرح بالاصالۃ اور ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ۲؎ رغدًا (وافر وار بے کدو کاوش)مفسرین نے اس کے معنی، ایسی روزی کے کیے ہیں جو خوشگوار بھی ہو اور بلا کو کاوش اور محنت بھی۔ الرغد: العیش الھنیٔ الذی لا عناء فیہ (فتح القدیر) اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصلی بہشت اور جنت تھی، کیونکہ یہ وہاں کی زندگی کا خاصہ ہے، دنیا میں لوازماتِ حیات کے لئے تگ و دو اور محنت ہی کرنا پڑتی ہے، اس کے بغیر مشکل ہے