کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 11
مولانا عزیز زبیدی واربرٹن قسط (۱۳) التفسیر والتعبیر وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ۱؎ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا۲؎ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا۳؎ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا ۴؎مِنَ الظّٰلِمِیْنَ٭ فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّج وَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ. اور ہم نے (آدم سے)کہا: اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور اس میں جہاں کہیں سے جی چاہے با فراغت کھاؤ (پیؤ)مگر اس درخت کے پاس مت پھٹکنا (ایسا کرو گے)تو تم (آپ اپنا)نقصان کر لو گے۔ پس شیطان نے ان کو وہاں سے (بہلا پھسلا کر)اکھاڑ دیا اور (آخر کار)بس (مزے)میں تھے اس سے ان کو نکلوا دیا اور ہم نے حکم دیا کہ تم (سب)اتر جاؤ، تم میں سے بعضے بعض کے دشمن رہیں گے اور تم کو زمین پر چندے ٹھہرنا اور مقررہ میعاد تک کام چلانا ہے۔ ۱؎ اُسْکُنْ (سکونت کر، آرام کر، رہائش کر، قیام کر)بعض ائمہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد عارضی قیام ہے، لیکن: یہ معنی عرفی تو ہو سکتے ہیں ، لغوی یا شرعی نہیں (فتح القدیر)ہو سکتا ہے یہاں عرفی معنی مراد ہوں ، کیونکہ کہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ انہیں بالآر زمین پر ہی فروکش ہونا تھا۔ ’’س، ک، ن‘‘ کے مرکب میں ، آرام و سکون کا پہلو بھی مضمر ہے، عدم