کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 10
ہی ’’سوشلزم، سوشلزم‘‘ بولے، اس کے دنیوی منافع گن گن کر بتائے، پھر مسلم عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے بعض نام نہاد ’’مولانا‘‘ ڈھونڈ لائے جنہوں نے قرآن کی ایک ایک سطر سے سوشلزم کو ثابت کیا، اس لئے ’’سوشلزم‘‘ کو ’’بپتسمہ‘‘ دے کر ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نام رجسٹرڈ کرایا۔ اور یہی وہ مولانا تھے جن کے بارے میں مرحوم سابق صدر ایوب نے کہا تھا کہ: انہوں نے معاہدہ تاشقند کو ’’صلح حدیبیہ‘‘ قرار دیا تھا۔ بہرحال جمعہ جمعہ ابھی آٹھ دِن نہیں ہوئے تھے کہ، سُرخوں نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیئے اور کچھ ’’ہاتفِ غیبی‘‘ نے بھی طنابیں کھینچیں ، تو اب ردِ عمل شروع ہوا کہ سوشلزم سے پیچھا چھڑایا جائے، پھر ان لوگوں سے ’’المدد‘‘ کہی جو بیگن کے نہیں ، ان کے غلام بادام تھے۔ اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے صدا بلند ہوئی: سوشلزم غلط، اسلام اور صرف اسلام ہمیں چاہئے۔ اسلام کے ساتھ ’’سوشلزم کا ٹانکا ہم نے صرف اس لئے لگایا تھا کہ سرمایہ داروں اور ملاؤں کے اقتصادی نظام سے امتیاز ہو سکے، ورنہ ہم تو شروع سے ہی اسلام چاہتے تھے۔ گو ہم جانتے ہیں کہ: یہ لوگ سوشلزم کے سلسلے میں نہ پہلے مخلص تھے اور نہ اب اسلام کے بارے میں مخلص ہیں ، دراصل یہ حضرات، کرسی کا تحفظ چاہتے ہیں ، وہ سوشلزم کا ٹانکا لگا کر ہو یا اسلام کا۔ بہرحال ’’محرک‘‘ کوئی ہو، سوشلزم کی یاری سے تو باز آئے۔ عدو شر بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد ہم بہرحال اس نئے تہیّا اور اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کے لئے استقامت کی خدا سے دعا کرتے ہیں ، خدا کرے ان کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ: دیا بہت بے وفا ہے، اس کے لئے اپنی حقیقی رب سے بے وفائی، کچھ زیادہ سود مند سودا نہیں ہے، اور وہ بھی بالکل چند روزہ۔ پھر ؎ کس نمی پر سد کہ بھیا کون ہو