کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 9
التفسیر والتعبیر عزیز زبیدی، واربرٹن سورہ بقرہ (قسط۱۴) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا۱؎ لِآدَمَ فَسَجَدُوا اور جب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کے آگے جھکو تو شیطان کے سوا (سب ___________________________________________ ۱؎ اسْجُدُوا: (سجدہ کرو ، جھک جاؤ، اطاعت کرو)یہاں سجدہ سے کیا مراد ہے؟ زمین پر پیشانی رکھنا یا نیازمند انہ سرجھکانا اور سلام کرنا؟ بہت سے حضرات کا خیال ہے کہ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ سجدہ غیراللہ کے لیے حرام اور کفر ہے۔ جمہور کے نزدیک اس سے مراد پہلے معنی ہیں ، لیکن اس کی نوعیت میں اختلاف کیا ہے۔ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ سجدہ خدا کو تھا، آدم علیہ السلام کی حیثیت صرف قبلہ کی تھی لیکن اسجدوا لادم کے الفاظ سے اس کی تائید نہیں ہوتی، دوسرے ائمہ کا ارشاد ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ آیات کریمہ کے سیاق اور احادیث پاک سے اسی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ﴾ (۱۵:۲۹) ’’جب میں اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیےسجدہ میں گر پڑنا۔‘‘ مسند احمد اور مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جب انسان (آیت )سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیان ایک طرف ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس! ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کیا،