کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 7
دنیائے اسلام اب اتنی طاقتور ہےکہ اسرائیل سے اپنے مقدس مقامات واپس لے سکے اور اسرائیل کو انہوں نےخبردار کیا کہ اسلامی ممالک اپنے مقدس مقامات کی بے حرمتی ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔اسرائیل کو چاہیے کہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے سے باز رہے او رمسلم مقامات مقدسہ کے خلاف اپنی مذموم حرکت ترک کردے ورنہ اسرائیل کے خلاف طاقت بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ روحانی لحاظ سے نہ سہی ، دنیوی طور پربھی اسرائیل کے یہ تمام منصوبے اور اقدامات مقبوضہ علاقے کے رہنے والوں کے حقوق اور مراعات سے متعلقہ جنیوا کنونشز کےبھی صریحاً خلاف ہے او راقوام متحدہ نے اس علاقہ کی اراضیات او راملاک کے بارے میں جو قرار دادیں منظور کررکھی ہیں ۔ ان کی بھی یہ صریح خلاف ورزی ہے۔ ان کی قرار دادوں میں سے اس مفہوم کی قرار دادیں بہت ہیں کہ اسرائیل نے بیت المقدس کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے جتنے قانونی و انتظامی اقدامات کیے ہیں ، وہ سب ناجائز ہیں ۔مسجد ابراہیم کا تعلق بھی اسی قسم کے تحفظات سے ہے۔ بہرحال اسرائیل کوچاہیے کہ اب مسلمانوں کو مزید اشتعال دلانے کی کوششیں ترک کردے اور انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ :مسلمان مسجد ابراہیم اور بیت المقدس کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ ٭٭٭ ماہ رمضان میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی ذمہ داری چند شرعی معٍذوروں کے سوا دوسرے ہر مسلمان پر روزے فرض ہیں ۔ مثلاً مریض،مسافر، دیوانے، دودھ پلانے والی یا حاملہ خواتین او رنابالغ بچے عنداللہ معذور ہیں ۔ ان کے علاوہ باقی جو مسلمان افراد ہیں ، ان میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔اگر کوئی تندرست شخص روزہ رکھنے سے جی چراتا ہے تو لوگ یہ کہہ کر خاموش ہورہتے ہیں ۔ اپنی اپنی کرنی اور اپنی اپنی بھرنی یہاں تک کہ حکومت بھی عوام یا خواص کی اس فروگذاشت سے بے تعلق رہتی ہے بلکہ اس سلسلے میں ان کا احتساب کرنے کو مداخلت فی الدین یا جمہوری حقوق میں مداخلت تصور کرکے چپ ہو رہتی ہے۔ حالانکہ اس کا نام ’’مداخلت‘‘ نہیں بلکہ یہ اس کا سیاسی فریضہ بھی ہے کیونکہ ہر اسلامی مملکت اس امر کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ دین اسلام کے سلسلے میں عوام پرکڑی نگاہ رکھے اور ان کو راہ راست پر چلنے کے لیے قانونی طاقت کا استعمال کرے۔