کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 64
افکار غزالی اور تعلیمات غزالی کے نام سے شائع ہوکر اہل علم سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔
امام غزالی رحمہ اللہ (م۵۰۵ھ)نے برسوں تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ فلسفہ کی موشگافیوں اور ایں وآں میں مشغول رہے۔ پھر تحقیق کے داعیوں نے زہد و ورع کی طرف مائل کیا اور تقریباً دس سال تک حجاز، شام او ربیت المقدس کے شہروں اور ویرانوں میں گھومتے رہے۔ یہ عرصہ یونانی فلاسفہ کے افکار کے تجزیے اور تنقید میں گزرا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ فلاسفہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے پہلے ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ لکھ کر یہ ثابت کیا کہ وہ جس گروہ کے مزعومات کی تردید کرنا چاہتے ہیں ان کےعلوم و معارف سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ اس کے بعد’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھی جس میں ثابت کیا کہ فلسفہ یونانی میں اس درجہ تناقض و تضاد ہے کہ اس سے مابعد الطبیعی حقائق کو قطعی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
امام غزالی رحمہ اللہ کے جواب میں ابن رُشد نے یونانی فلاسفہ کا دفاع کیا اور ’’تہافۃ التہافۃ‘‘ کےنام سے جواب لکھا۔ ہر دو کتب فلسفہ یونان او راسلامی علم کلام کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
مولانا محمد حنیف ندوی صاحب نے ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ کے بیس ابواب کی تلخیص و تفہیم کی ہے۔ زبان سادہ اپنائی ہے۔ تلخیص و تفہیم کے آغاز میں طویل مقدمہ ہے جس میں مولانا موصوف نے دلنشین انداز میں فلسفہ، اس کے مقتضیات اور یونانی فلاسفہ کے تعارف او راُن کے افکار پر مختصراً گفتگو کی ہے۔ امام غزالی او رابن رُشد کا تقابلی مطالعہ پیش کیا اور پُرزور محاکمہ لکھا ہے۔ ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ کی اہمیت کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے کہ اس میں فلسفہ و کلام کے وہ تمام مباحث سمٹ آئے ہیں جن پر صدیوں ہمارے ہاں بحثیں ہوتی رہی ہیں او رہماری فکری کاوشوں کا مایہ ناز ذخیرہ ہیں ۔
مقدمہ میں مولانا نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ ’’جزیرۃ العرب میں کیوں اس کثرت اور تسلسل کے ساتھ انبیاء مبعوث ہوئے یا خط یونان کو یہ شرف کیوں بخشا گیا کہ یہاں عقل و خرد کی اس درجہ ارزانی ہو۔‘‘ (صفحہ ۵)
قاری اس سوال کا جواب چاہتا ہے ۔ مولانا نے اس سلسلہ میں جغرافیائی او رتہذیبی اثرات کو چنداں اہمیت نہیں دی اس لیے بجا طور پر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ مولانا مثبت طور پر اس فکری خلش کو دور کریں گے۔
اُردو خواں طبقہ مولانا کی اس کتاب سے غزالی کی فکر بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
٭٭٭