کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 61
متعلق مضامین کامجموعہ ’’فارسی پاکستانی و مطالب پاکستان شناسی‘‘ شائع کیا۔ پاکستان شناسی کے موضوع پر فارسی زبان میں یہ اوّلین کتاب تھی۔
پاکستان آنے سے پہلے موصوف ایران کے شعبہ تعلیم سے منسلک تھے او رفارسی زبان و ادب کے استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے مختصر دور ملازمت میں دو بار اساتذہ کےتعلیمی سیمیناروں میں حصہ لیا۔ زیر نظر تالیف (سفر نامہ)ان میں سے ایک سیمینار کی روداد ہے۔مؤلف نے خوانسار سے اپنے سفر کا آغاز کیا او رمشہد (خراسان)میں سیمینار میں شرکت کی۔ اس نسبت سے کتا ب کا نام ’’از خوانسار تا خراسان‘‘ تجویز کیا۔
زیر نظر کتاب تہران کے معروف ہفت روزہ ’’‘فردا‘‘ میں بالاقساط شائع ہوئی البتہ مؤلف کا قلمی نام ’’ابن بی بی‘‘، ’’زینت فردا‘‘ رہا۔ لکھتے ہیں :
’’این یادداشت ہارا تحت نام ’’ابن بی بی ‘‘ می نگاشتم۔ بی بی نام مادر من بود۔ من بہ مادرم مدیون مرہون ہستم۔ اومرا پردرش داد، رنج ہاکشید، غم گساری ہاکرد، تیمارداری ہانمود، من نور ستہ بارد گردیدم، چون نام مادر من ’’بی بی‘‘ بود ومن ہم البتہ ابن بی بی یا پسر بی بی ہستم‘‘
آقائے تسبیحی نے دوران سفر میں آنکھیں بینا او ردماغ بیدار رکھا۔ راستے میں آنے والے شہروں ان کے آثار قدیمہ، کتب خانوں ،کوہ و بیابان، گلزار و خیابان غرضیکہ ہر اہم پہلو پر گفتگو کی ہے۔ مثال کے طور پر سبزوار سے گزرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ اس شہر کا قدیم ’’بیہق‘‘ ہے۔ اس شہر کی تمام آبادی اثنا عشری ہے۔ اس شہر کی مٹی سے بہت سے دانشمند پیدا ہوئے مثلاً ابن فندق (قرن ششم)ابوالفضل بیہقی، او رابوجعفر بیہقی وغیرہ ۔ ان کے حالات پربھی مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔
نیشاپور سے گزر ہوا تو خیام کا تذکرہ آیا اور پھر اسی نسبت سے مقبرہ خیام، رباعیات خیام، اُن کے تراجم اور بعض دوسری باتیں زیربحث آئیں ۔ یہی انداز طوس کے بارے میں ہے۔
سیمینار میں شرکت او راس کی مصروفیات پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ آقائے تسبیحی کے تاریخی اور ادبی ذوق نے کتاب کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ وہ زاہد خشک نہیں بلہ جابجا طنزو مزاج سے بھی کام لیتے ہیں ۔ تاریخی او رادبی معلومات سے پُر سفر نامہ طنزو مزاج کی چاشنی سے مزید پُرلطف ہوگیا ہے۔
زبان (فارسی)اس قد رسادہ ہے کہ ایک اُردو خوان بھی معمولی محنت سے لطف اٹھا سکتا ہے کتاب کے آخر میں چار مختلف النوع انڈکس ہیں ۔ انڈکس کی تیاری میں محنت او رعرق ریزی کرنی پڑتی ہے۔