کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 60
مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے حلقہ علم و ادب میں بلند نام حاصل کیا ہے۔مولانامملوک علی (م۱۸۵۱ئ)دہلی کالج میں عربی زبان و ادب کے استاد تھے۔ ان سے سینکڑوں طلبہ نے استفادہ کیا او رملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں کوشاں رہے۔
مولانا محمد یعقوب نانوتوی ، انہی مولانا مملوک علی کے فرزند ارجمند تھے۔مولانا یعقوب ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اور صوفی منش بزرگ تھے۔ وہ دارالعلوم کے صدر مدرس بھی رہے تھے اور اس نسبت سے ان کے تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع ہے۔
زیر نظر تالیف بنیادی طور پر مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی سوانح عمری ہے۔ ضمنی طو رپرمولانا مملوک علی نانوتوی کاتذکرہ لکھا گیا ہے ۔مؤلف نے ان کےعہد کے حالات پر بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔مثال کے طور پر ’’جہاد آزادی ۱۸۵۷ء ‘‘ میں علمائے دیوبند کی شرکت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ مؤلف نے بعض مقامات پر اپنے حالات کو بھی شامل کرنا ضروری خیال کیا ہے۔
’’سیرت یعقوب و مملوک‘‘ قدیم انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس انداز تالیف میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر زمانے کے تقاضے کونظرانداز کرنا درست نہیں ہے۔مولانا محمد یعقوب کے علم و عمل ، طب و شاعری پر علیحدہ علیحدہ ابواب میں گفتگو کی گئی ہے او ربحیثیت مجموعی یہ حصہ جاندار ہے۔
...........................................................
(۳)
نام کتاب : از خوانسار تا خراساں
مؤلف و ناشر : محمد حسین تسبیحی
۱۸۴۔ خیابان راشد منہاس ۔ راولپنڈی
صفحات : ۴۳۶ قیمت : ۲۵ روپے
ایرانی فاضل جناب محمد حسین تسبیحی ان جوان سال و جوان حوصلہ افراد میں سے ہیں جن کی زندگی کا مقصد علم و ادب کی خدمت ہے۔ ان دنوں موصوف مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان راولپنڈی میں ناظم کتب خانہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔کتب خانہ کے شعبہ مخطوطات کی فہرست سازی ان کی توجہ کا مرکز ہے۔ دو ضخیم جلدیں ’’فہرست نسخہ ہائے خطی کتب خانہ گنج بخش‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں ۔ تیسری جلد زیر طبع او رباقی زیر تسوید و ترتیب ہیں۔
جناب تسبیحی کو پاکستان او راہل پاکستان سے بے پناہ محبت ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اڑھائی سالہ قیام میں خیبر سے کراچی تک سفر کیا۔ اہل علم کی صحبت سے استفادہ کیا او ران کے کتب خانوں کو دیکھا۔ پاکستان کی ثقافت و تہذیب پر مضامین قلمبند کئے۔ گذشتہ سال پاکستان سے