کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 6
کے چمار بن کر رہ جائیں او ریوں مرعوب ہو رہیں کہ سراٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے کا حوصلہ نہ کرسکیں ۔ حالانکہ بیت المقدس کے منشور میں یہ تحریر ثبت ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے ہے او رکوئی یہودی اسےاستعمال کرنے کا مجاز نہیں ہے۔مگر اب گنگا الٹی بہ نکلی۔ جو اصل وارث تھے، ان کو نکال باہر کیا جارہا ہے او رجن کو اس کے استعمال نہیں تھی، وہ اس کے متولی اور وارث بن بیٹھے ہیں ۔ مسجد صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے،غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے نام معبد، گوردوارہ، مندر او رکلیسا وغیرہ ہیں ۔ اس لیے کسی دوسری قوم یا فرقے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے مذہبی معاملات یا عبادت گاہوں میں کوئی تصرف یا مداخلت کرے۔ تصرف او رمدافعت تو بڑی بات ہے، ہمارا قرآن تو یہ اعلان کرتا ہے کہ اگر یہ مسجدیں بنانا بھی چاہیں تو ان کو اس کا حق نہیں ہے۔ ﴿مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ﴾ (پ۱۰۔ توبہ ع۳) ہمیں پوری طرح علم ہے کہ اس سود خوار قوم کو عبادت گاہوں سے کوئی دلچسپی نہیں ، ان کو میخانے یا قمار خانے درکار ہیں ، دراصل وہ اپنے ارد گرد مقدس مقامات کا حصار قائم کرکے اپنی ریاست کا استحکام چاہتے ہیں ، تاکہ داورہ بھی وسیع ہوجائے، مسلمانوں کاانخلاء بھی آسانی سے کیا جاسکے، او رکچھ عرصہ کے بعد وہ دنیا کی نگاہ میں بڑے ’’پیرومرشد اور احبار‘’‘ کہلا کر ساری روحانی دنیا کے پیشوا بن سکیں ۔مسلمان بہرحال ان کی ان چالوں اور سازشوں کو سمجھتے ہیں او روہ اپنی ہزار کمزوریوں کے باوجود اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ ’’یہود و نامسعود‘‘ کادماغ درست کرسکیں ۔ یہودیوں کی تمام تخریبی سرگرمیوں اور فریب کاریوں کے پیچھے جو دست غیب کام کررہے ہیں ، وہ تمام بڑی طاقتیں ہیں جو اس امر پرمصر ہیں کہ یہودیوں کا ایک وطن ضرور ہونا چاہیے۔ اگر درمیانی حل کے طور پر کسی عرب ملک نے بھی ان کی منظوری دی تو مسلمان اسے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس کے وارث ۸۰ کروڑ مسلمان ہیں ، کوئی ایک مسلم ملک نہیں ۔ اب تازہ خبر موصول ہوئی ہے کہ جدہ میں اسلامی وزراء خارجہ کی ایک کمیٹی نے اسرائیلی تجاویز کے خلاف جوابی کارروائی کا پروگرام تیار کرلیا ہے اور اس امر کا امکان قوی ہے کہ احتجاج کے لیے وزراء خارجہ کی کانفرنس بلائی جائے۔ شہزادہ سعود الفیصل نے بالکل صحیح کہا ہے کہ :