کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 57
منفی انداز یہ تھا:
ثلٰث من کن فیہ کان منافقاً: اذا حدث کذب واذا وعد اخلف واذا خاصم فجر (حدیث)
’’جس شخص میں تین خصلتیں پائی جاتیں وہ منافق ہوتا ہے: بات کرے تو جھوٹی، وعدہ کرے تو خلاف کرے او رجب جھگڑے تو بکواس کرے۔‘‘
جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل مبارک کا تعلق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خوبیوں کا اعتراف مخالفین بھی کرتے تھے۔ آپ کے دعوائے نبوت کی تردید و افکار میں کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہا، کاہن کہا، شاعر کہا، مجنون کہا، مگر سیرت و تاریخ کی کتب شاہد ہیں کہ کسی کو اتہام کذب کی جرأت نہیں ہوئی۔ حیرت ہے کہ ابوجہل یہ کہا کرتا تھا: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تم کو کاذب نہیں کہتا مگر جو کچھ تم کہتے ہو میں اس کو صحیح نہیں مانتا۔‘‘ (جامع ترمذی، تفسیر انعام)
سیرت ابن ہشام میں مذکور ہے کہ ابوسفیان نے قیصر روم کے دربار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راست گفتاری او رایفائے عہد کی شہادت دی۔
مندرجہ بالا اخلاقی محاسن کے علاوہ نظافت پسندی، مہمان نوازی، لطف طبع، جود و سخا، ایثار و قربانی، الغرض ہزاروں ایسے پہلو ہیں جن کو علمائے کرام سیر و فضائل کی کتب میں درج کرتے رہے ہیں ۔ میں اپنا سلسلہ کلام حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی اس رباعی پر ختم کرتا ہوں :
واجمل منک لم ترقط عین واحسن منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین صورت آج تک آنکھ نے نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت تو عورتوں نے جنا ہی نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر نقص و عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں گویا کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا اللہ نے بنا دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں کو اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
٭٭٭