کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 56
مدینہ پرحملہ کی افواہ پھیلی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دفاع کے لیے سب سے آگے اکیلے ہی پہنچ گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں آخر یہ جرأت و شجاعت کیوں نہ ہوتی جبکہ خود خدا تعالیٰ کا ارشاد تھا:
واللہ یعصمک من الناس ’’اللہ تعالیٰ لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائیں گے۔‘‘
(۱۱)تواضع و انکساری
کان اشدالناس تواضعا فی علو منصبہ (حدیث)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم علو منصبی کے باوجود نہایت متواضع تھے۔‘‘
کسر نفسی اور تواضع کی انتہا یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نسبت جائز تعظیمی الفاظ بھی پسند نہ فرماتےتھے۔ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کو یا خیر البریہ (مخلوق کے بہترین)کہہ کر مخاطب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ ابراہیم تھے۔‘‘ (مسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: لا تخیرو نی علی موسیٰ (بخاری)’’مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔‘‘
اسی طرح بخاری مسلم میں (متفق علیہ)روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عجز و تواضع کی بنا پر انما ان بشر مثلکم ’’ میں تمہارے ہی طرح کا آدمی ہوں ۔‘‘ فرمایا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو بھی یہی تعلیم دی او رکسی کے سامنے مداحی کو ناپسند فرمایا: اذا رأیتم المداحین فاحثوا فی وجوھھم التراب۔ (ابوداؤد)’’جب تم بہت مدح سرائی کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی پھینک دو۔‘‘ یعنی ان کو اہمیت نہ دو اور ان کے منہ بند کردو۔
او رمنشاء ایزدی بھی یہی ہے: ﴿وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ ﴾ (حدید)’’اللہ تعالیٰ ہر اکڑنے والے فخر پسند سے نفرت کرتا ہے۔‘‘
(۱۲) راست گفتاری اور ایفائے عہد
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ان امور کی تعلیم مثبت و منفی دونوں انداز سے دی تھی۔
مثبت انداز یہ تھا:
علیکم بالصدق وایاکم والکذب (حدیث)
’’سچ کو لازم پکڑو اور جھوٹ سے دور رہو۔‘‘
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت: حسن العہد من الایمان ’’ایفائے عہد کرنا ایمان سے ہے۔‘‘