کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 55
(۹)عفو و حِلم
اس وصف مبارکہ میں بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے انہیں ایک مقام پر جمع کردیا ہے۔ چند ایک ملاحظہ ہوں :
کان احلم الناس وارغبھم فی العفو مع القدرۃ ’’آپ نہایت حلیم الطبع او رطاقت کے باوجود معافی میں رغبت رکھتے تھے۔‘‘
اس کا سبب قرآن حکیم کا یہ ارشاد تھا:
﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )انہیں معاف کردے، ان سے درگزر کر، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے کو دوست رکھتے ہیں ۔‘‘ ........ اور
والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس ’’(متقی)غصہ کو پی جانے والے او رلوگوں کی کوتاہیاں معاف کردینے والے ہوتے ہیں ۔‘‘
اس کا عملی مظاہرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی ہی فرماتے رہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر جس کمال عفو و درگزر کا مظاہرہ ہوا اس کی مثال تاریخ انسانی کا کوئی انقلاب پیش نہیں کرسکتا۔
لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء ’’آج تم پرکوئی ملامت نہیں ، جاؤ! تم آزاد ہو۔‘‘
(۱۰)جرأت و شجاعت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سینکڑوں مصائب و خطرات اور بیسیوں معرکے اور غزوات پیش آئے لیکن کبھی شجاعت و پامردی کے قدم میں تزلزل واقع نہیں ہوا۔
امام غزالی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں :
کان انجد الناس واجشعھم
’’آپ نہایت سخی اور دلیر تھے۔‘‘
غزوہ اُحد اور غزوہ حنین کے واقعات اس حقیقت پرشاہد عادل ہیں ۔ غزوہ حنین میں جب کفار حملہ آور ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اتر آئے اور زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب (بخاری)
’’میں نبی ہوں ، جھوٹا نہیں ۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘