کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 54
اپنے لیے چاہتا ہے۔‘‘ (۶) عیادت و تعزیت سنن نسائی ’’باب التکبیر علی الجنازہ‘‘ میں ہے: کان عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم احسن شئ عیادۃ المریض ’‘’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مریض کی عیادت بہترین عمل تھا۔‘‘ عیادت و تعزیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوست دشمن او رمؤمن و کافر میں تفریق نہیں فرماتے تھے۔ امام غزالی رحمہ اللہ ’’احیاء العلوم الدین‘‘ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتے ہیں : کان یعود المریض و یتبع الجنازۃ ’’آپ بیماروں کی عیادت کرتے او رجنازوں کے ساتھ جاتے تھے۔‘‘ (۷)زُھد و تقویٰ زہد و تقویٰ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت منفرد و ممتاز تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں : ان اتقٰکم و اعلمکم باللّٰہ انا ۔ (بخاری و مسلم)’’تم میں ....... کا پرہیزگار او رسب سے زیادہ عالم میں صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیام لیل میں اتنی کثرت فرماتے تھے کہ پاؤں پر ورم آجاتا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے استفسار پر فرماتے: افلا اکون عبداً شکوراً ’’کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نماز کی نسبت قابل ذکر ہے: جعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ (نسائی)’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (۸)شرم و حیاء صحاح ستہ میں ایسی روایات بکثرت وارد ہوئی ہیں جن میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوشیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارکہ تبسم کے علاوہ کبھی خندہ و قہقہہ سے آشنا نہیں ہوئے۔ اگر محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ انور کے آثار سے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری طبع نمایاں ہوجاتی تھی۔