کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 52
سکتی ہے کہ قرآن یہ اعلان کررہا ہے۔ ووجدک عائلا فاغنیٰ ’’ہم نے تجھے تنگ دست پایا پس غنی بنا دیا۔‘‘ لیکن غنی ہونے کے باوجود گھر سے فاقہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے غرباء و مساکین کے معاشی تعطل کو رفع کرنے کے لیے اپنے اوپر فقر اختیاری لازم فرما لیا تھا۔ دنیا کی کوئی ہستی یہ مثال پیش نہیں کرسکتی کہ وہ خود تو تین تین دن کافاقہ کرے مگر دوسروں کی بھوک برداشت نہ کرسکے۔ یہ نمونہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کے سامنے پیش کرسکتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے: من ترک دینا فعلی قضاؤہ ومن ترک مالا فلورثتہ (بخاری) ’’جس پر قرض ہو وہ میرے ذمہ ہوگا او رجو مال چھوڑے وہ اس کے ورثاء کا۔‘‘ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو یہ حالت تھی: ماترک دینا راولاد رھما ولا شاۃ ولا بعیرا ولا اوصیٰ بشیء ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے نہ درہم دینار او رنہ ہی بکری اونٹ چھوڑا او رکسی کے حق میں وصیت بھی نہیں کی۔‘‘ وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو مال و دولت کامالک نہیں بلکہ ’’قاسم‘‘ تصور کرلیا تھا۔ انما انا قاسم واللّٰہ یعطی (بخاری) ’’دہندہ تو اللہ ہے میں تو صرف تقسیم کنندہ ہوں ۔‘‘ (۴)عدل پسندی و منصف مزاجی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل کے بھی دو پہلو ہیں : (۱) عدل بین الناس (۲)عدل بین الازواج عدل بین الناس کی مثال اس واقعہ سے معلوم ہوجاتی ہے جو ’’امرأۃ مخذومیہ‘‘ کی چوری کے ضمن میں پیش آیا او رحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کوجو سفارش کرنے آئے تھے، فرمایا: لو کانت فاطمۃ بنت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقطعت یدھا (بخاری) ’’اگر (بنو مخزوم کی فاطمہ کی جگہ)فاطمہ رضی اللہ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا۔‘‘ اور عدل بین الازواج کی حقیقت اس روایت سے نمایاں ہوجاتی ہے: