کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 51
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے کی سواری کرتے تھے۔‘‘ اور کان یرعی الغنم فی مکۃ (بخاری)’’مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریاں چراتے تھے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہر کام خود اپنے ہاتھوں سے کرلیا کرتے اور اس میں قطعاً عار محسوس نہ کرتے تھے۔ (۲)استقلال و مداومت قرآن حکیم نے انبیاء علیہم السلام کی نسبت اولو العزم من الرسل کہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں چونکہ تمام اوصاف و کمالات نہ صرف جمع تھے بلکہ رفعت و بلندی کی آخری حد پر تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عزم و استقلال او رمداومت عمل کی مثال کسی نبی میں بھی نہیں مل سکتی۔ مکی دور کےمصائب و آلام او رمشکلات و تکالیف کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش کا پیدا نہ ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے۔ عزم و استقلال او رمداومت عمل کی نسبت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ملاحظہ ہو: ایکم لیستطیع ما کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیستطیع (بخاری، کتاب الرقاق) ’’جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرسکتے تھے تم میں سے کون کرسکتا ہے؟‘‘ دوسری روایت میں ہے: وکان اذاعمل عملااثبتہ (بخاری، کتاب الادب۔ ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کام کرتے نہایت پائیدار کرتے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ارشاد اس ضمن میں قابل غور ہے‎: ان احب العمل الی اللّٰہ ادومہ (بخاری و ابوداؤد) ’’اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے۔‘‘ (۳)نفع بخشی و فیض رسانی نفع بخشی و فیض رسانی کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ ارشاد فرمایا تھا: الخلق کلھم عیال اللّٰہ احبھم الیہ انفعھم ’’مخلق ساری اللہ تعالیٰ کے عیال ہیں او ران میں سے لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا اللہ کو بہت پیار اہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک اپنے قول سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس سے بڑھ کر اور واضح دلیل کیا ہو