کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 5
مسجد ابراہیم اور یہود الخلیل ایک قصبہ کا نام ہے جو دریائے اُردن کے مغرب کنارے پر بیت المقدس سے ۲۰ میل کے فاصلہ پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، یہ قصبہ سطح سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر بیت اللحم کے جنوب میں واقع ہے، اس کی آبادی اب تقریباً پچاس ہزار ہے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زندگی کے دن زیادہ یہاں گزارے تھے۔ حرم الخلیل کے تحت ’’مکفلا‘‘ نامی ایک عظیم اور تاریخی غار ہے، جس میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے تاریخی مزار ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ غار اپنے خاندان کے قبرستان کے لیے خرید کیا تھا۔ جہاں اب حضرت سارہ، حضرت ابراہیم، حضرت اسحا ق او رحضرت یوسف علیہم السلام کے مزارات واقع ہیں ۔ ان مبارک مزارات کے تعویذ مسجد ابراہیم کے بالائی فرش پر ایک خاص حصے پرتھوڑے تھوڑے فاصلے پر تعمیر کیے گئے ہیں اس لیے اس کے قدرتی طور پردو حصے بن گئے ہیں ۔ ایک حصے پر مزارات ہیں ، دوسرے حصے پر مسجد ہے۔ اس مسجد کے پاس ایک مسافر خانہ ہے جوقدیم ایام سے مسافروں کے ٹھہرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس سلسلے کے تمام اخراجات حضر ت تمیم دارمی رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگوں کے اوقاف سے پورے کیے جاتے ہیں ۔ یہ ستمبر ۱۹۶۸ء تک اردن کا حصہ رہا ہے۔ ۵ جون ۱۹۶۸ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ستمبر ۱۹۶۸ء میں اس پر یہودیوں نے قبضہ کیا، پھر بتدریج اس پر اپنی گرفت سخت کرنا شروع کردی، پہلے آس پاس کی مسلم آبادی کو برباد کرکے ان دیہاتوں میں یہودیوں کو لا بسایا، جب ان کی نفری بڑھی تو انہوں نے بتدریج مسجد پر ڈورے ڈالنے شروع کردیے۔ پہلے اس کےمزارات والے حصہ پر قبضہ کیا او ریہی حصہ بڑا تھا اور اسی جانب مسجد کے دروازے بھی بہت پڑتے ہیں ، پھر یعقوب علیہ السلام کے مزار کو ایک نئی چھت کے ذریعے مزار ابراہیم سےملانے کااعلان کیا، پھر مسجد میں اپنے حصے کے لینے کا پروگرام بنایا، اس میں ’’عبادت سبت ‘‘کی، ساتھ ہی مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکنے او ران کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے ل لیے انواع و اقسام کے ظلم ڈھائے۔ ان کو اجاڑا، ان لوٹا، ان کو گھر سے بےگھر کیا، وہاں ایک کنواں تھا ، جسے انہوں نے ختم کیا۔ ایک تاریخی دیوار گرائی،مسجد کی الماریاں اور چٹائیاں تک اٹھا کر لے گئے، ان کے جنازوں کی بے حرمتی کی، جس سے غرض یہ تھی کہ اب مسلم ان