کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 49
مخالفین کے عظیم اجتماع میں کوئی معمولی چیلنج نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۴۰ سالہ حیات طیبہ جوبچپن، لڑکپن، نوجوان، جوانی او رپختہ عمری کی تمام منازل پر مشتمل تھی، ایک صفحہ قرطاس کی مانند ہر ایک کے سامنے تھی۔ ہر فرد کو انگلی اٹھانے کی کھلی دعوت تھی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چالیس برس کسی گوشہ تنہائی میں بسر نہیں کیے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار پردہ گمنامی میں ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو خواہ وہ تدبیر منزل سے متلق ہو یا سیاست مدن سے، اپنوں او ربیگانوں کے سامنے تھا ۔ حرب فجار اور حلف الفضول میں شرکت،سفرہائے تجارت، عائلی و معاشرتی امور سےدلچسپی، شہری و قومی مسائل سے عملی تعلق اور لوگوں سے عام لین دین۔ الغرض یہ وہ معاملات تھے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واسطہ رہا او رپھر یہ عرصہ بھی کوئی کم نہ تھا۔ ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ انسانی شخصیت کا ہر پہلو تقریباً ۴۰برس کی عمر تک تکمیل پذیر ہوچکا ہوتا ہے او رتمام انسانی محاسن و معائب اس دور کے اواخر تک منصہ شہود پر آجاتے ہیں ۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اگر اس چیلنج کی اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو ہر صاحب عقل اس حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کردے گا کہ اس قدر اخلاقی وثوق و اعتماد صرف اسی تاجدار عرب و عجم کا ہی نصیب تھا جس نے بزبان قرآن پہاڑ کی چوٹی پر اپنے خلق عظیم کی شہادت پیش کی اور ابوسفیان جس کی تصدیق واشگاف الفاظ میں (مذہبی عناد کے باوجود)قیصر روم کے دربار میں کیے بغیر نہ رہ سکا۔
اس پہلی قرآنی شہادت کے بعد متعدد مقامات پرخلق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف مختلف انداز سے کی گئی ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :
(۱)﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ (ن)
’’بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلق عظیم کے مالک ہیں ۔‘‘
(۲) ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴾ (توبہ)
’’تمہارے پاس تمہی میں سے رسول پہنچا جس پر وہ چیز شاق گزرتی ہے جوتمہیں مشقت میں ڈال دے، تمہاری نگہبانی کرتا او رمومنوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی رکھتا ہے۔‘‘
(۳)﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران)
’’ کرم الہٰی کی بدولت تیرا معاملہ ان سے نرمی کا ہے او راگر تو ان ک ےلیے سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے مال سے بھاگتے۔‘‘