کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 46
آپ عقبہ اولیٰ میں مسلمان ہوئے اور تمام جنگوں میں شریک ہوئے لیکن حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے کا واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔ قدم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم المدینۃ وانا فی غتم لی ادعا ھا فترکتھا ثم ذھبت الیہ فقلت بایعنیفباء یعنی علی الھجرۃ الحدیث۔ یعنی آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں پہنچنے کے بعد مسلمان ہوئے اس میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ آپ عقبہ اولیٰ میں مسلمان ہوئے ہوں او رحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر دوبارہ بیعت لینا چاہی تو حضور نے ہجرت پر بیعت لی۔
آپ جنگ صفین میں حضرت امیرمعاویہ کے ساتھ تھے اور حضرت امیرمعاویہ کی خلافت میں مصر کے والی بھی رہے۔ آپ۵۹ھ میں فوت ہوئے۔ الاصابہ:ج۱ص۲۸۱۔ اسدالغابہ:ج۳ص۵۹۔ الاستیعاب:ج۲ص۴۸۹۔ کان حافظ الاتقان:ج۱ص۷۴۔
کان عقبہ قاریاً عالماً بالفرائض والفقہہ او ریہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر قرآن مجید لکھا ہوا کافی دیر کے بعد بھی دیکھا گیا جو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نسخہ سے الگ تھا۔کتاب الانساب للسمعانی ص۱۴۵۔ مختصر یہ کہ آپ حافظ ۔ قاری اور عالم تھے۔
۲۳۔حضرت ابوموسیٰ اشعری
نسب: ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس بن سلیم بن حرب بن عامر الاشعری۔
آپ دبلے پتلے جسم کے مالک تھے۔ آپ اسلام لائے او راپنے وطن واپس چلے گئے۔وہاں سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فتح خیبر کے موقع پر واپس آئے تو حضرت ابوموسیٰ اشعری بھی اسی موقع پر تشریف لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یمن کے بعض علاقوں زبید اور عدن وغیرہ کا والی بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا لقد اُتی من مارا من مزامیر آل داؤد یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی آواز کی تعریف فرما رہے ہیں ۔ آپ ابھی یمن میں ہی تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی پھر آپ واہس مدینہ آگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بصرہ کا حاکم بنایا او رحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو کوفہ کا حاکم مقرر فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ کوئی عامل ایک سال سے زیادہ نہیں رہ سکتا اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو چار سال کے لیے عامل نامزد کیا اور سفین کے مکین میں سے ایک ابوموسیٰ الاشعری تھے۔
آپ کی وفات ۴۴ھ ہے۔ الاصابہ:ج۲ص۳۵۱۔ اسدالغابہ:ج۲ص۲۴۸۔
ھاجر الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فقد اعلیہ عند خبیر و حفظ القرآن والعلم۔
یعنی آپ قرآن مجید کے علاوہ دوسرے علوم و فنون سے بھی بہرہ ور تھے۔معرفۃ القراء: ج۱ ص۲۷۔ الاتقان: ج۱ ص۷۴ و حفظ القرآن و عرضھا علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ۔ طبقات جزری :ج۱ص۴۴۲........... (باقی آئندہ)
٭٭٭