کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 43
معرفۃ القراء ذہبی: ج۱ص۳۳۔کان حافظا الاتقان:ج۱ص۷۴۔ آپ حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ قاری بھی تھے۔ طبقار جزری: ج۱ص۳۰۱ میں ہے کہ وردت الروایۃ فی حروف القرآن۔ ۱۷۔ حضرت ابوہریرہ نسب: ابوہریرہ عبدالرحمٰن بن عامر بن عبدالشریٰ بن طریف بن عتاب بن ابی صعب الدوسی۔ آپ کے نام کے بارے میں کافی اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دس قول نقل کیے ہیں اور جزری نے ترجیحاً لکھا ہے۔ آپ کے اسلام لانے کے متعلق بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے ۷ ھ میں لکھا ہے۔ ذہبی نےبھی یہی لکھا ہے لیکن بعض کے خیال کے مطابق آپ ۷ ھ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ روایت کرنے والی انہیں کی ذات ہے۔ ایک دن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کثرت روایت کےمتعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے کوئی کام تو تھا نہیں سوائے حدیثیں یاد کرنے یا کھانے پینے کے بخلاف مہاجرین و انصار کے کیونکہ وہ اپنے کام کاج میں مشغول بھی ہوتے تھے جب کہ میں ہمیشہ حضور کی خدمت میں ہی رہتا تھا تو یہ بات ضروری ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حدیثیں یاد کیں ۔ پھر آپ سے سوال ہوا کہ آپ کو اتنی حدیثیں یاد کس طرح رہ گئیں تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انی لا سمع منک حدیثاً کثیرا انساہ فقال ابسط رداء د فبسطتہ ثم قال سما الی صدرک فضمتا فما نسیت حدیثا بعد۔ انتہی۔ (ترجمہ)اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے بہت سی باتیں سنتاہوں مگر بھول جاتا ہوں ۔ آپ نے چادر بچھانے کا حکم دیا۔ میں نے چادر بچھائی۔ پھر آپ نے فرمایا اس کے سینے سے لگا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ سینے سے لگانا تھا کہ ذہن کے حافظے کے دریچے کھل گئے۔ اس کے بعد مجھے کوئی بات نہیں بھولی۔ اب اس کے بعد بھی کسی کو آپ کی فقاہت پر کلام ہو تواسے چاہیے ک ہاپنے عقل کے ناخن لے۔ کیونکہ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کشتہ سے آنکھیں بند کرلے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ذہن حافظے کے لیے عنایت فرمایا تھا۔ آپ کی وفات ۵۷ھ میں ہوئی۔ الاصابہ:ج۵ص۳۱۵۔ الاستیعاب:ج۲ ص۶۹۷۔ آپ کے حافظ ہونے کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ نقل کیے گئے ہیں وقرأ القرآن علی ابی بن کعب۔ حضرت نے قرآن مجید یاد کرکے حضرت ابی بن کعب کو سنایا۔ معرفۃ القراء