کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 41
صحابہ کہتے ہیں کاش کہ اس کی جگہ ہم ہوتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے حق دار بن جاتے۔ آپ کے حافظ ہونے کے بارے میں یہ الفاظ ملتے ہیں ۔ کان اوھافاضلاً کثیر التلاوۃ للقرآن العزی انتہی واللہ اعلم بالصواب۔ الاصابہ:ج۲ ص۳۳۰۔ اسدالغابہ: ج۳ ص۱۲۲ یعنی آپ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کرتے تھے۔ تلاوت تب ہی ہوسکتی ہے جب کہ آپ حافظ ہوں کیونکہ اس وقت قرآن مجید آج کل کی طرح ایک جگہ سب کے پاس جمع نہیں تھا۔
۱۴۔ حضرت ابن بن کعب
نسب: سید القرأ ابوالمنذر و ابوالطفیل ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زیاد بن معاویہ الانصاری المعاوی۔
آپ عقبہ ثانیہ میں مسلمان ہوئے اور تمام جنگوں میں شریک ہوئے۔ آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امرت ان اقراء علیک القرآن۔ یعنی مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ پر قرآن پڑھوں حضرت ابی کہنے لگے اللّٰہ سمانی لک فقال نعم۔ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر کہا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا واقعی اللہ نے آپ کا نام لے کر مجھے کہا ہے تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رونے لگے کیونکہ رونا خوشی میں آجاتا ہے۔ خوشی جب حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو سیدالمسلمین کے نام سے مخاطب کرتے تھے اور فرماتے تھے: اقرأ یا ابی۔ آپ کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے خیال میں آپ خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں فوت ہوئے مثلاً حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور بعض کے خیال میں آپ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں فوت ہوئے۔مثلاً ابن اثیر جزری۔ الاصابہ :ج۱ ص۳۱۔ اسدالغابہ:ج۱ص۴۹۔ الاستیعاب: ج۱ص۲۶۔
آپ کے حافظ ہونے میں کسی کو کلام نہیں ۔ عرض القرآن علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے قرآن مجید یاد کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ آپ نے حضرت ابی بن کعب کے بارے میں فرمایا تھا: استقوواء القرآن من اربعۃ عبداللّٰہ ابن مسعود سالم مولیٰ ابی حذیفۃ و معاذ بن جبل و ابی بن کعب رضی اللّٰہ عنہم ۔ حافظ ابن سیرین نے آپ کے بارے میں کہا ہے۔ کان حافظا الاتقان:ج۱ص۷۴۔
قرأ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم القرآن العظیم و قرأ علیہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بعض القرآن للاء شاد والتعلیم۔ یعنی حضور اور حضرت ابی نے قرآن کا دور بھی کیا ۔ حضرت ابی نے پورا قرآن مجید حضور کو سنایا اور حضور نے کچھ حصہ پڑھا۔ حماد بن سلمہ کے واسطے سے