کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 35
رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں جود وسخا کی حد کردیتےتھے،جیسی اندھیری چل پڑی ہو۔ (کالریح المرسلۃ ۔ بخاری) اطلق کل اسیرو اعطی کل سائل (بیہقی) ’’آپ ہر قیدی کو آزاد کردیتے اور ہرسائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے تھے۔‘‘ اس مبارک ماہ میں قرآن پاک کا ایک ختم آپ ضرور کیا کرتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ بیٹھ کر دھراتے تھے۔ (بخاری) حضرت عمر جب قرآن حکیم کا ختم کرتے تو ایک اونٹ ذبح کیا کرتے تھے یعنی شکرانے کے طو رپر ۔ (سیرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ بھی قرآن مجید کثرت سے ختم کیاکرتے تھے اور فرماتے کہ اس کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ (صفۃ الصلوٰۃ لابن الجوزی) صحابہ رمضان کی مبارک راتوں میں اس قدر لمبا قیام کیا کرتے تھے کہ سحری کے فوت ہوجانے کاان کو اندیشہ لاحق ہوجاتا تھا۔ قیام اللیل وغیرہ) لیکن افسوس! آج کل قیام (تراویح)صر ف ایک گھنٹہ مگر تعداد رکعت پر بحث شاید ساری رات۔ انا اللہ الغرض:ماہ رمضان کے روزے انسانیت کو بہیمیت کے بوجھ سے ہلکا کرکے کتاب و سنت سے ہم آہنگی کے لیے ایک مبارک تقریب پیدا کردیتے ہیں ۔ کیا کوئی ہے کہ حق تعالیٰ کے اس احسان اور اکرام کااحساس کرے؟ یہ قرآن جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی ماہ میں نازل ہوا تاکہ اس سازگار فضا اور ماحول میں قرآنی رشد و ہدایت اور رحمتوں کو حرز جان بنا سکیں ۔ غرض یہ ہے کہ تزکیہ و طہارت کا اہتمام ہوجائے تاکہ احکم الحاکمین کے پاک دربار اور باب الہٰی میں آپ بار یاب ہوسکیں ،اگر پورا ماہ روزے رکھ کر بھی آپ قرب ووصال کی اس دولت سے شاد کام نہ ہوسکے تو پھر یقین کیجئے کہ ماہ مبارک کے روزوں میں آپ سےکوتاہی ہوگئی ہے اور یہ بہت بڑا حرمان اور بدنصیبی ہے۔ من حرم خیرھا فقد حرم (نسائی۔ابوہریرہ) ولا یحرم خیرھا الاکل محروم (ابن ماجہ۔ انس‎) ٭٭٭