کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 34
حق تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کی تعمیل ، احساس ممنونیت کے ساتھ کی جائے، ہمارے نزدیک یہ وہ سٹیج ہے جہاں پہنچ کر انسان کتاب و سنت کی تعلیمات اور تقاضوں کے لیے اپنے اندر ایک قدرتی پیاس محسوس کرتا ہے۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہےکہ: ’’انسان صحیح معنی میں مسلم اس وقت ہوتا ہے ، جب قرآن کےفرمائے ہوئے اوامر و نواہی اس کی اپنی خواہش بن جائیں ، یعنی وہ یہ نہ سمجھے کہ میں کسی حاکم یاآقا کے حکم و تسلط کے ماتحت فضاول اخلاق و عبادات پر کاربند اور ذمائم و قبائح نفس سے مجتنب ہوں بلکہ یہ چیزیں اس کی اپنی تمنا بن کر اس کے عمق روح سے اچھلیں ، قرآن اس کے حق میں ایک تلخ اور شافی دوا نہ رہے بلکہ ایک لذیذ اور زندگی بخش غذا بن جائے۔ منشائے الہٰی اور فطرت انسان میں مغائرت نہ رہے (ملفوظات اقبال ص ۷۰) تیسری جو چیز قرآن حکیم کے سامنے ہے وہ بندوں کے تقویٰ کی نشوونما اور تکمیل ہے۔ لعلکم تتقون (بقرہ ع۲۳) تقویٰ کیا ہے؟ یہ اس بے چینی یا اندیشہ ہائے درون کا نام ہے جو ایک عاشق زار اپنے حبیب کے روٹھ جانے کے احساس سے اپن قلب و نگاہ کے نہاں خانوں میں سدا محسوس کرتاہے۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔ اےبرق تو ذرا کبھی تڑپی ٹھہر کئی یا عمر کٹ چکی ہے اسی اضطراب میں جہاں شب و روز بے کلی کا سا سماں برپا ہو، وہاں حق تعالیٰ جیسی قدردان ذات کریم کا یہ اعلان کچھ غیر متوقع نہیں رہتی کہ: الصوم لی وانا اجزی بہ (بخاری) ’’روزہ میرےلیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا‘‘ روزہ دار اب اس پر کیوں نہ فخر کریں ۔ سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ : ’’جس شخص نے مؤمن ہوکر محض رب سے اجر پانے کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور رات کو قیام کیااس کے پہلےسب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ الحدیث (بخاری و مسلم)