کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 32
مگر اس فرق کے ساتھ کہ تعلق باللہ اور صبغۃ اللہ کے رنگ کے پھیکا پڑ جانے کے جو امکانات پیدا ہوجاتے ہیں بس اس کو کنٹرول کرنے کے لیے یک رنگی کی یہ ایک صورت ہے جو پیدا کر لی جاتی ہے ۔ اللّٰہ اللّٰہ خیر سلا۔
ان عبادات میں ’’روزہ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔دیکھئے تو روزے دارمصروف کار بھی ہے ۔ سوچئے! تو دل اس کا سوئے یاربھی ہے بظاہر وہ دکان میں بیٹھا ہے لیکن باطن میں معیت الہٰی کے احساس سے ہمکنار بھی ہے۔ دیکھنے میں لوگوں کی انجمن اور محفل میں براجمان بھی ہے مگر حال یہ ہے کہ وہ تنہا بھی ہے، روٹی کما بھی رہا ہے اور روٹی سے بیزار بھی ہے۔
سوشلزم اور دنیا داروں کااصرار ہے کہ : شکم کے تقاضے بہرحال پورے ہوں ، خدا کہتا ہے کہ شکم سے بالاتر ہوکر حریم کبریا کے دیار کا سفر بھی کبھی کردیکھئے! لوگ کہتے ہیں کہ ساری بے اطمینانیوں کی جڑ، زر، زمین اور زن کے سلسلے میں ’’عدم مساوات‘‘ ہے۔ اسلام کاارشاد ہے کہ اصل بنائے فساد یہ (زر ، زن اور زمین جیسے)وسائل نہیں ہیں بلکہ ان کو الٰہ، قاضی الحاجات، مطلوب بالذات اور بے خدا تصور کرنا ہی بگاڑ کی اصل بنیاد ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ:
جس ماہ میں غزوہ بدر پیش آیا وہ پہلا ماہ رمضان تھا۔ جس میں روزے فرض ہوئے۔ (زاد المعاد:۱؍۱۶۰)
گو وہ گوشہ تنہائی میں خلوت گزین ہے مگر اللہ کی معیت کے احساس سے سرفراز بھی ہے، دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر اللہ سے ذرہ بھر بھی نہیں ڈرتا، لیکن اس کا حال یہ ہے کہ خشیت الہٰی سے ترساں بھی ہے،جب کوئی پاس نہیں ہوتا، اس وقت بھی حدود اللہ کا اسے پاس رہتا ہے۔
روزے سے انسانیت کو جلا نصیب ہوتی ہے۔ سرکش بہیمی خصائص کا زور ٹوٹتا ہے، مسرفانہ حیوانی تقاضوں کابوجھ ہلکا ہوتا ہے اور انسانیت ملکوتی خصائص سے آراستہ ہوکر گردن فراز ہوجاتی ہے۔
قرآن حکیم کاارشاد ہے کہ:
روزوں کی یہ ریت شروع سے چلی آرہی ہے اور ہر قوم پر یہ فرض رہے ہیں ۔
﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ ﴾ (بقرہ)
اس مبارک ماہ میں اس قرآن حمید کا نزول ہوا جو’’کامل رہنمائی‘‘ کا حامل ہے، رہنمائی روز روشن کی طرح دلاول و حقائق پرمبنی ہے ورنہ ایک آئینی تقاضے سے عہدہ برآ ہونے والی بات ہوتی ، لیکن اس سے قلبی خلش اور ذہنی بوجھ سے چھٹکارا نہ ملتا اور وہ سرتاپافرقان بھی ہے یعنی حق اور باطل ، خیر