کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 30
نزول قرآن اور رُشد و ہدایت کاماہ مبارک
ماہ رمضان ..... تزکیہ و طہارت کا مہینہ
قرب ووصال کی گھڑیاں ، ایام صیام کی ساعتیں
دنیا اپنا ایک مزاج اور اسلوب رکھتی ہے ، جس طرح اس کوبالکلیہ نظر انداز کرنا اس کے فطری حقوق اور احترام کے بالکل منافی ہے ، اسی طرح اس کو بالکلیہ آزاد وار آوارہ چھوڑ دینا بھی نادان کے ہاتھوں میں چُھری تھما دینے کےمترادف ہے۔
اپنے انداز زیست کے لیےدنیا جو نظام تمدن تخلیق کرپاتی ہے۔ اس کےتین رنگ اور تین ہی اسلوب ہیں :
تمدن حسی: اس کی ساری عمارت حواس، اس کی تخلیقات اور نتائج کی اساس پر قائم ہے۔ یہ ایک ایسا عوامی تمدن ہے جس میں انسانی معاشرہ کے لیےبلاکی کشش پائی جاتی ہے۔ کیونکہ جیسا یہ سہل ترین ہے۔ ویسا ہی انسانی خواہشوں کی تسکین اور شادکامی کے لیے سب سے لذیٍذ اور قرب تر بھی یہی ہے، اغراض ،مصالح، ذاتی منفعت اور نقد حظ نفس کے لیے یہ تمدن ایک پُرکشش ، مزیدار اور ایک کیف اور دستر خوان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت یعنی ’’نفسی نفسی‘‘ کا رنگ غالب ہے اور اجتماعیت بھی جہاں اور جیسا کچھ پائی جاتی ہے وہ بھی چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح نجی اور شخصی اغراض کے خمیر پر قائم ہے۔ الغرض یہاں حواس کی پوری دنیا ’’لذتیت اور بہیمی خواہشات‘‘ کی تکمیل کے لیے سرگردان ہے اور ان کی چاکری میں شب و روز مصروف ہے۔
عقلی تمدن: یہ وہ نظام ہے جوتمدن حسی کو ’’معقولیت‘‘ کی راہ پر ڈالنے کے لیے کچھ سفارشیں مہیا کرتا ہے لیکن جزوی طور پر تو کسی حد تک اس کی سن لی جاتی ہے مگر ایک نظام کی حیثیت سے عملاً وہ کہیں بھی برپا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے معنوی مقاصد کے لیے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اب اس کے ذمے یہ ڈیوٹی بھی لگا دی گئی ہے کہ ’’منفعت عاجلہ اور لذت ذائقہ‘‘ کے انواع والوان تلاش کرکے وہ ’’کام و دہن‘‘ کی تسکین کے لیے وسائل کابھی کھوج لگائے۔ دراصل اس ’’عقلی تمدن‘‘