کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 29
تزئین مقصود ہے تو وہ بھی فتنہ کا باعث ہے۔ واما الوقف علی القبور..... فلاشک فی بطلاتھا لانھا رفعھا قد ورد النھی عنہ کما فی حدیث علی: انہ امرہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ان لا یدع قبر اشرفا الاسواہ.... وکذلک تزیتھا و اشد من ذلک ما یجلب الفتنۃ علی زائرھا لوضع الستور الفائقۃ والاحجار النفسیۃ و نحوذ لک..... وبالجملۃ فالوقف علی القبور مفسدۃ عظیمۃ و منکر کبیر (الداری المضیئۃ :ص؍۱۴۴) اس کے علاوہ یہ وقف حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے بھی خلاف ہے ، کیونکہ آپ کا ارشاد ہےکہ : الحی احرج الی الجدید من المیت (مؤطا مالک باب ماجاء فی کفن المیت) مردے سے زیادہ زندہ کونئے کپڑے کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا زندہ ضرورت مند ہے، مروں پر ان کو ترجیح نہ دی جائے، مثلاً اوقاف ہیں یا ان کے لیے عمارتیں اور غلاف ہیں یا وہاں چہل پہل اور رونقیں ہیں ، ان کے لیے بعض سہولتیں ہیں جائز نہیں ہیں ، ان سب کے حاجت مند زندہ ہیں ، مردے نہیں ہیں ۔ اس لیے خانقاہوں کے جتنے اوقاف ہیں جائز نہیں ہیں ، ورنہ وہی کچھ ہوگا جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ابتدائ میں صلحاء نے بزرگوں کےمقابر کے پاس اپنی تربیت گاہیں قائم کی تھیں کیونکہ دوسری جگہ اگر قائم کرتے تو حکومتیں ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتیں ۔ اس لیے ان تربیت گاہوں کو زندہ رکھنے کےلیے خانقاہوں کے نام اوقاف جاری کیے گئے تھے گو نیت نیک تھی مگر بنیاد غلط پڑ گئی تھی، اس لیے اب اس کے غلط بلکہ حوصلہ شکن نتائج نکل رہے ہیں ۔ عافیت راہ سنت اختیار کرنے پر موقوف ہے اور صرف راہ سنت پر۔بہرحال اب وہ تربیت گاہیں بھی نہیں رہیں بلکہ وہ معصیت اور بدعت کے اڈے بن گئے ہیں اس لیے جس قدر جلدی ممکن ہو ان کوختم کیا جائے۔ قبریں مقام عبرت ہیں مقام تجارت نہیں ہیں ۔ ٭٭٭