کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 28
ای الا یثنی علی بسببہ و یجعل بذلک مزیۃ فضل .... ماوقع فی قصۃ الجمل فاستحیت بعد ذلک ان تدفن ھناک (فتح الباری : ۲؍۲۵۸ مصری)
حالانکہ کتاب و سنت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مقام بہت بلند تھا، رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ مگر اس کے باوجود سوچنے کا ادناس منکسرانہ تھا۔ الغرض اس کی تمنا کرنا بُری بات نہیں ہے لیکن اس کو چو ردروازہ بنانا کچھ مفید بات نہیں ۔ اس سے انسان پاک نہیں ہوتا مگر یہ کہ خدا قبول کرلے۔
وقف علی القبور: وقف سے غرض بوجہ اللہ موقوف علیہ (جن پر وقف کیا جائے)کی خدمت اور اعانت ہے۔ خانقاہیں بجائے خود ناجائز ہیں ۔ ان کے نام کے اوقاف کہاں جائز ہوسکتے ہیں ؟ پاک و ہند میں بالخصوص احناف کی کثرت ہے اور اسی مسلک کے لوگوں نے یہ خانقاہ بنا رکھے ہیں ۔ اس لیے ہم انہی کے بزرگوں کے ارشادات پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی سمجھ میں آجائے۔
امام محمد فرماتے ہیں کہ ، قبر سے جومٹی نکلے ، بس وہی اوپر ڈال دی جائے، مزید نہیں ، اس کو چونے گچ بنایا جائے یامٹی سے لیپی جائے یا اس کے پاس کوئی مسجد بنائی جائے یااس پرکوئی نشان لگایا جائے یا اس پر کچھ لکھا جائے؟ تو یہ سب مکروہ ہیں ۔
ولا نری ان یزاد علی ماخرج منہ و نکرہ ان یجصص او یطین اویجعل عندہ مسجداً او علماً او یکتب علیہ (کتاب الاثار امام محمد)
پکی اینٹ کی قبر بنانا یا اس میں داخل کرنا بھی مکروہ ہے اور یہی اقوال امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
ویکرہ الاجران یبنی بہ او یدخل القبر .... وھو قول ابی حنیفۃ (ایضاً)
یہ سب باتیں خانقاہوں کی ہوتی ہیں ۔ جب یہ چیزیں جائز ہی نہیں تو ان کے لیے وقف چہ معنی؟ آخر قبر کے لیے وقف کیوں ؟ عمارت کے لیے؟ وہ جائز نہیں ؟ آراستہ کرنے کے لیے؟ وہ بھی جائز نہیں ! خدام کے لیے؟ ان کی یہاں کیاضرورت؟ عرس کے لیے؟ توبھی ممنوع ! آنے جانے والوں کے لیے؟ تو یہاں آنے کی کیا ضرورت ؟ زیارت قبور کے لیے ؟ سو اس غرض کے لیے کوئی جاتا ہی نہیں ۔ جو جاتے ہیں وہ قلیل ہوتے ہیں ۔ ان کے لیے اتنے عظیم وقف کی حاجت ہی نہیں ہوتی۔
ہوسکتا ہے کہ ’’ایصال ثواب ‘‘ کی نیت ہو۔ تو پھر وقف کسی اور کے نام ہوتا، قبر اور خانقاہ کے لیے کیوں ؟ اسے ثواب اور اسی کے نام وقف؟ ایک لطیفہ ہے۔
حضرت امام شوکانی لکھتے ہیں کہ وقف علی القبور بالکل باطل ہے۔ ان کو اونچا رکھنا ہے تو وہ حضور کے ارشاد کےخلاف ہے کیونکہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ ہر اونچی قبر مسمار کردو۔ ان