کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 26
دارالافتاء عزیز زبیدی، واربرٹن اپنی قبر کے لیے پاک جگہ کی تمنّا .... خانقاہ کے نام وقف ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ: ۱۔ اگر کوئی شخص یہ وصیت کرے یا اس کی خواہش کرے کہ : اس کو کسی پاک جگہ ، مقدس مقام اور نیک لوگوں کے پاس دفن کیا جائے تو کیا یہ جائز ہے ؟ کیا اس سے اس کو فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے؟ ۲۔ کسی خانقاہ کے نام زمین ، مکان یا مخصوص آمدنی وقف کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ الجواب واللّٰہ اعلم بالصواب پاک جگہ کی تمنّا: اس سے پہلے بھی یہ سوال اور اس کاجواب شائع ہوچکا ہے، شائد موصو ف کی نظر سے وہ نہیں گزرا ۔ مزید مکرر عرض ہے کہ : پاک جگہ کی تمنّا کرنا جائز ہے،جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر میں آتا ہے کہ جب ان کو یقین ہوگیا کہ موت بہرحال آکر رہے گی تو انہوں نے رب سےکہا کہ :الہٰی ! تو پھر مجھے ارض مقدس سے قریب کر دیجئے! تقریباً پتھر پھینکنے کے فاصلہ پر۔ قال فلان: فسأل اللّٰہ ان یدیتہ من الارض المقدسۃ رمیۃ بححر (بخاری:۱؍۱۷۸)باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ اونحوھا) باقی رہا تمنّا؟ سو اصل میں مطالعہ اس کا چاہیے! کہ اس کامحرک کیا ہے؟ کیا اس کی تہ میں یہ بات ہے کہ : وہ خود پاک ہستی ہے، اس لیے اپنی روح کی تسکین کے لیے ویسی سازگار فضا اور ماحول چاہتی ہے تو انشاء اللہ یہ حسرت ضرور رنگ لائے گی، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی تھی۔ قال رایت عمر بن الخطاب قال یا عبداللّٰہ بن عمر اذھب الی ام المؤمنین عائشۃ فقل یقوأ عمر بن الخطاب علیک السلام ثم سلھا ان ادفن مع صاحبی الحدیث (بخاری