کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 18
کیونکہ اس دارالامتحان کا یہی فطری تقاضا ہے۔ یہاں سے نکل جاؤ: اب حکم ہوتا ہے کہ دونوں یہاں سے تشریف لے جائیں ۔ ﴿ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ﴾وقال اھبطا منھا جمیعا (پ۸۔ طہٰ ع۲)چونکہ حظ نفس کے چرکے بیدار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے باہم آویزش کے امکانات بھی ابھر آئے تھے، اس لیے فرمایا : وہاں ایک دوسرے سے تمہاری چپقلش رہے گی۔﴿بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ﴾ (ایضاً)اس کے بعد پوری نسل کے لیے زمین کو ہی مسکن بنا دیا، وہاں ہی مرنا، جینا اور مرکر وہاں سے پھر ظاہر ہونا، ان کامقدر بنا دیا۔ ﴿قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (24) قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ﴾ (پ۸۔ اعراف ع۲) پھر پوری نسل انسان کو اس المیہ سے آگاہ کرکے تنبیہ فرمائی کہ کہیں تم اس کے نرغے میں نہ آجانا۔ ﴿يَابَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ﴾ (پ۸۔ اعراف ع۳) میری ہدایت اور رہنمائی جب تمہارے پاس پہنچے تو جس نےاس کا اتباع کیا وہ پھر گم گشتہ جنت پالے گا اور راستہ کہیں بھی نہیں بھٹکے گا۔ ﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى﴾ (طہٰ ع۷) مگراس پہلے مرحلہ کے بعد جوں جون نسل انسانی آگے بڑھی ابلیس بھی اپنی ذریت کے ساتھ اور تیز ہوتا گیا اور اپنے منصوبے کےمطابق ان کو اپنے جال میں لاکر شکار کرتار رہا۔ مثلاً اعمال کی دل فریبی۔ شیطان کے ہتھکنڈوں میں سے ایک چربہ یہ ہے کہ انسان جو بھی کام کرتا ہے اس کے لیے اس میں دل فریبی پیدا کردیتا ہے ۔ دل فریبی کے رنگ کئی ہوتے ہیں ، (۱)بدعت کو عبادت بنا کر اس کی نگاہ میں جاذب کردیتا ہے، (۲)لطف حاضر کو وعدہ فردا پر ترجیح دینے کی تحریک پیدا کردیتا ہے، (۳) خوش فہمی میں مبتلا کرکے پٹخنی دیتا ہے۔ ﴿وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (پ۷۔ الانعام ع۵)﴿زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ ﴾ (پ۱۰۔ انفال ع۶)﴿وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ﴾ (پ۱۹۔ النمل ع۲) تنگدستی کا ڈر: انسان کی سب سے بڑی کمزوری روزی کی تنگی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے شیطان یہ حربہ استعمال کرتا ہے کہ (۱)راہ حق میں خرچ کیا تو تنگ دست ہوجاؤ گے (۲)اگر حق و راستی پر مبنی کاروبار کیا تو دیوالیہ ہوجاؤ گے، اس لیے جائز اور ناجائز کی بک بک میں نہ پڑیں ، جس طرح بن پڑے کمائیں ۔