کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 17
اس نے یہ حیلہ کیا: قسمیں کھائیں اور کہا کہ: اصل بات یہ ہے: اس درخت کے کھانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے یا بقائے دوام حاصل کرلیتا ہے ۔ اس لیے اللہ نے آپ سے یہ راز چھپایا ہے اور کہا: یقین کیجئے میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔
﴿وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ () وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴾ (پ۸۔ الاعراف ع۲)
یہ سب کچھ فریب اور دھوکے سے کیا: فدلھما بغرور (ایضاً)
احکا م الہٰی کے سلسلے میں وہ کوتاہی سب سے زیادہ فتنہ ثابت ہوتی ہے ، جو کسی خاجری فلسفہ کی پیداوار ہوتی ہے اور شیطان عموماً اسی راہ سے حملہ آور ہوتا ہے، جیسا کہ یہاں ہوا۔
بہرحال حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بھرے میں آگئے اور اس نافرمانی کاقدرتی نتیجہ ظاہر ہوکر رہا یعنی چکھتے ہی ستر کھل گیا اور اب لگے پتوں کو چپکانے۔
﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ ﴾ (پ۸۔ الاعراف ع۲)
یہ اصلی بہشت تھی،کیونکہ اس کی یہ خاصیت تھی کہ اس میں بھوک تھی نہ پیاس، نہ عریانی نہ دھوپ۔
﴿ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى () وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى ﴾ (پ۱۶۔طہٰ ع۷)
لیکن اگر انسان خو دہی ان خالص کو چھوڑ دے تو ظاہر ہے، بہشتی خصائص ساتھ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
رہ رہ کر انسان کے دل میں یہ خلش پیدا ہوتی ہے کہ حضرت آدم کی قیام گاہ بہشت، وہ مقام لازوال اور پاک، شیطان کا گذر وہاں کیسے ہوا اورحضرت آدم وہاں سے کیسے نکلے؟
اصل بات یہ ہےکہ : جب بہشت بطور جزا ملے گا، وہاں سے پھر کوئی نہیں نکلے گا، بطور مہمان یا معائنہ داخلہ ہو تو لازوال نہیں ہوتا۔ جیسا کہ معراج کی رات حضور بہشت میں تشریف لے گئے اور پھر آ بھی گئے۔باقی رہا وہاں ابلیس کا گزر کیسے ہوا اور وسوسہ اندازی اس کے لیے کیسے ممکن ہوئی؟ تو غرض ہے کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ شیطان خارج سے نہیں آیا تھا، بلکہ پیدائشی طور پر ایک ابلیس اور ایک فرشتہ ہر انسان کےساتھ ساتھ رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح جس طرح ایک انسان کے اپنے اعضاء ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مامنکم من احد الا وکل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملئکۃ قالوا و ایاک یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال وایای ولکن اللّٰہ تعالیٰ اعاننی علیہ فلا یامرنی الابالحق (مسلم:۲؍۲۲۲)